لیبیا: قذافی اقتدار چھوڑ دیں، یورپی یونین کا مطالبہ
11 مارچ 2011برسلز منعقدہ اجلاس میں ستائیس رکنی یورپی یونین کے رہنماؤں نے لیبیا کی صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ یورپی کمیشن کے صدر باروسو کے مطابق لیبیا کا صرف ایک مسئلہ ہے اور وہ معمر قذافی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قذافی کو جانا ہوگا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق ایک ایسا شخص جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہو وہ یورپی یونین کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کا اہل نہیں ہے۔
دوسری جانب مغربی صحافیوں نے قذافی کے حامیوں کے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ زاویہ باغیوں کے ہاتھ سے نکل کر قذافی کے قبضے میں آگیا ہے۔ جمعے کے روز باغیوں نے دعویٰ کیا کہ طرابلس کے مشرق میں واقع شہر مصراتہ پر اب ان کا کنٹرول ہے۔ اس علاقے میں شدید لڑائی جاری ہے۔
دوسری جانب امریکہ کی جانب سے لیبیا کے خلاف کسی عسکری کارروائی کے امکانات مزید کم ہوگئے ہیں تاہم واشنگٹن کے انٹیلی جنس حلقوں کا خیال ہے کہ قذافی مخالف قوتوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ لیبیا کے مشرقی حصوں میں تعمیر نو اور راحت کاری کے لیے غیر فوجی دستے روانہ کیے جائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ وہ لیبیا کی حکومت مخالف قیادت سے ملنے کو تیار ہیں تاہم انہوں نے اس ضمن میں امریکہ کے کسی یک طرفہ عمل کی مخالفت کی ہے۔
امریکہ کے نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر جیمز کلیپر کے بقول لیبیا میں بالآخر حکومتی فورسز ہی کو برتری ملے گی۔ ان کے اس بیان پر ری پبلکن ارکان نے شدید تنقید کرتے ہوئے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھرلیبیا میں کشیدگی اور خانہ جنگی کی وجہ سے انسانی بحران سنگین تر ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق لیبیا میں جاری شورش کے سبب ڈھائی لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لگ بھگ ایک لاکھ چالیس ہزار افراد نے لیبیا چھوڑ کر تیونس کا رخ کیا، ایک لاکھ سے زائد مصر گئے جبکہ دیگر نے الجزائر اور نائجر کا رخ کیا۔ مصر سے ملحقہ سرحد پر اب بھی یومیہ پانچ ہزار سے زائد افراد کو خوراک کی امداد کی فراہمی جاری ہے۔ یو این کے مطابق لیبیا میں بیشتر حصوں میں امدادی کاموں کا سلسلہ رُکا ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ صحت کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے لیے عالمی برادری سے 160 ملین ڈالر امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عابد حسین