لیبیا: قومی اتحاد حکومت کے قیام کا عالمی سطح پر خیر مقدم
12 مارچ 2021
لیبیا کی پارلیمان نے انتخابات سے قبل ایک قومی اتحاد حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہے جس سے ملک میں برسوں سے جاری تنازعے کے خاتمے کی بھی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔
اشتہار
جرمنی، مصر اور اردن کے رہنماؤں نے لیبیا کو مستحکم کرنے کے مقصد سے ایک قومی اتحاد حکومت کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس فیصلے کے لیے لیبیا کے رہنماوں کی تعریف کی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعرات 11 مارچ کے روز کہا کہ لیبیا نے ایک عبوری حکومت کے قیام پر جو اتفاق کیا ہے وہ جنگ زدہ ملک کے لیے ''ایک شاندار پیش رفت ہے۔''
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک مشترکہ کانفرنس کے دوران جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ساتھ اردن اور مصر کے وزراء خارجہ نے بھی اس پیش رفت کی تعریف کی۔
مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے اسے اچھی خبر سے تعبیر کرتے ہوئے کہا، ''جب بھی اچھی خبر ہو تو ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک روز قبل ہی سیاسی عمل پر اعتماد کے لیے ووٹنگ ہوئی اور اس کا آغاز بھی ہوگیا ہے، یہ بہت اہم نقطہ ہے۔''
اس دوران لیبیا کے لیے یورپی یونین کے سفیر جوس سباڈیل نے اس بات پر زور دیا کہ لیبیا کی نئی قومی اتحاد حکومت، ''عالمی برادری کی مکمل حمایت پر اعتبار کر سکتی ہے۔''
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
6 تصاویر1 | 6
بدھ 10 مارچ کو جب لیبیا کی پارلیمان نے ایک عبوری قومی اتحاد حکومت کے لیے ووٹ کیا تو اس وقت جرمن وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ لیبیا کی پارلیمان نے سیاسی عمل جاری رکھنے کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب حکومت نے، '' قومی سطح پر آزادانہ انتخابات کے لیے ایک بڑے کام کی تیاری شروع کر دی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کو پھر سے متحد ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
اشتہار
امن کی جانب ممکنہ راستہ
لیبیا کی پارلیمان نے بدھ کے روز ایک ایسی متحدہ حکومت پر اتفاق کر لیا تھا جس کو منقسم اور جنگ زدہ ملک کو ایک ساتھ لانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی حکومت پر اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت دسمبر میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کی بھی ذمہ داری ہے۔
وزیر اعظم عبدالحمید ذبیح کی کابینہ نے پارلیمان میں متحدہ حکومت کے قیام کی جو قرارداد پیش کی تھی اسے 132 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ مخالفت میں صرف دو ووٹ پڑے۔ اس کامیابی کے بعد وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ نے کہا، '' یہ بات بالکل صاف ہوگئی ہے کی لیبیا کی عوام متحدہے۔''
لیبیا کے عوام معمول کی زندگی کے خواہاں
02:54
اس برس لیبیا کو اپنے آئین میں ترامیم اور آزادانہ عام انتخابات کرانے ہیں۔گرچہ تمام رہنماؤں نے اس کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کر رکھا ہے تاہم پھر بھی یہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
یورپی یونین میں خارجی امور سے وابستہ طارق مجریسی کا کہنا ہے، ''اگر ہم اس صورت حال سے ایک حکومت اور اداروں کے ایک متحدہ گروپ کے ساتھ نکل آئے، تو ہم پچھلے پانچ برسوں سے جہاں ہیں اس سے کہیں بہترمقام پر ہوں گے۔''
سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ملک میں خانہ جنگی کے سبب افرا تفری کا ماحول ہے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں جو ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد کئی برسوں سے لیبیا شدید سیاسی، معاشی اور انسانی بحران میں مبتلا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔