مشرقی لیبیا کے بن غازی میں مظاہرین نے حکومت کے دفتر کو نذر آتش کر دیا جس کے بعد مشرقی علاقے کی عبوری حکومت مستعفی ہوگئی ہے جبکہ ملک کے متعدد شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔
اشتہار
لیبیا میں بدعنوانی اور ناقص معاشی حالات کے خلاف کئی روز سے احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے جس کے پیش نظر مشرقی لبیا کی عبوری حکومت اتوار 13 ستمبرکومستعفی ہوگئی۔ وزیر اعظم عبداللہ الثانی نے مشرقی لیبیا کے ایوان نمائندگان کے اسپیکر کو اپنا استعفی سونپ دیا ہے۔
سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہیں جو ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ اس وقت سے ہی ملک میں ایک طرح کی خانہ جنگی جاری ہے اور لیبیا آج تک مستحکم نہیں ہوسکا۔
مشرقی لیبیا کے مرکزی شہر بن غازی اور المعرج میں احتجاجی مظاہرین نے حکومت کے دفاتر میں آگ لگا دی۔ معرج شہر جنگجو سردارخلیفہ حفتر اور ان کی خود ساختہ 'لیبیئین نیشنل آرمی' (ایل این اے) کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ملک کے حنوبی شہر الصباح اور البادیہ میں بھی حکومت مخالف زبردست احتجاجی مظاہروں کی خبریں ہیں۔
انساینت سوز انتشار
کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد کئی برسوں سے لیبیا شدید سیاسی، معاشی اور انسانیت سوز انتشار میں مبتلا ہے۔ ملک میں پھیلی افرا تفری کے خلاف گزشتہ جمعرات کو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور تب سے بار بار بجلی منقطع کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اے ٹی ایم مشینوں میں کرنسی کی شدید قلت ہے، تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور عوام ان تمام مسائل سے بری طرح پریشان ہیں۔
لیبیا: پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہوا
تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا کبھی شمالی افریقہ کا امیر ترین ملک تھا۔ لیکن اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے حصوں میں پینے کے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
بنیادی سہولیات کی کمی
لیبیا میں پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے اس حصے میں پانی فراہم کرنے والے 149 پائپوں میں سے 101 تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
ماڈرن واٹر پائپ لائن سسٹم میں خرابی
لیبیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ سابق آمر معمر قذافی نے اسی کی دہائی میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں پائپ لائن سسٹم بچھایا تھا، جسے ’گریٹ مین میڈ ریور‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیبیا کی ستر فیصد آبادی کو صاف پانی اسی نظام کے تحت فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ نظام زوال کا شکار ہے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
خانہ جنگی اور افراتفری
سن دو ہزار گیارہ میں قذافی کو زوال کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تب سے یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طرابلس حکومت کمزور ہے اور ملک کے سبھی حصوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔ دوسری جانب جنرل خلیفہ حفتر کی فوج ملک کے تمام بڑے مشرقی حصوں پر قابض ہے۔
تصویر: AFP/M. Turkia
نشانہ طرابلس ہے
خلیفہ حفتر کی فوج (ایل این اے) مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے واٹر پائپ لائن کو استعمال کرتی ہے۔ مئی میں خلیفہ حفتر کے حامی جنگجوؤں نے واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرتے ہوئے ملازمین کو پانی بند کرنے پر مجبور کیا۔ ایک قیدی کی رہائی کے لیے دو دن طرابلس کا پانی بند رکھا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
پانی بطور جنگی ہتھیار
یہ صرف مسلح گروپ ہی نہیں ہیں جو پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جو پائپوں پر لگے تانبے کے ویل ہیڈز چرا لیتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے فریقین کو خبردار کر رکھاہے کہ پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
صحت کے مسائل
یونیسیف کے ترجمان مصطفیٰ عمر کے مطابق اگر ان مسائل کا کوئی حل نہ ڈھونڈا گیا تو مستقبل میں لیبیا کے چالیس لاکھ باشندوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اے اور ہیضے جیسی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
پانی بھی قابل استعمال نہیں
لیبیا کے بہت سے حصوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہے۔ بیکڑیا یا نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں۔ اکثر اس پانی کو پینے سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
7 تصاویر1 | 7
جنگجو سردار خلیفہ حفتر کی ملیشیا، 'ایل این اے' نے مشرقی علاقے کی حکومت کے خلاف گزشتہ تقریباً 14 ماہ سے جنگ چھیڑ رکھی ہے جس سے حکومت کافی کمزور بھی ہوئی ہے۔ خلیفہ حفتر کا مقصد کسی بھی طرح دارالحکومت طرابلس پر قبضہ کرنا ہے۔ عالمی برادری طرابلس میں قائم موجودہ حکومت کی حامی ہے جس کی قیادت فائز السراج کے ہاتھوں میں ہے۔ اقوام متحدہ بھی اسی حکومت کو تسلیم کرتی ہے۔
خام تیل کی دولت سے مالامال شمالی افریقی ملک لیبیا ڈکٹیٹر معمر القذافی کے زوالِ اقتدار کے بعد سے جنگی حالات سے دوچار ہے۔ مسلح قبائلی گروپوں کے درمیان تیل کی دولت کے حصول کے لیے پرتشدد جد و جہد جاری ہے۔ اس وقت لیبیا میں طاقت کے حصول کی کشمکش طرابلس میں قائم اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت اور خلیفہ حفتر کی فوج 'لیبیئن نیشنل آرمی‘ کے درمیان جاری ہے۔
ص ز/ ج ا (ایجنسیاں)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔