اقوام متحدہ نے لیبیا کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس شمالی افریقی ملک میں قائم مہاجرین کے حراستی مراکز کو بہتر بنائے۔ لیبیا میں سیاسی بحران کے باعث وہاں مہاجرین کے ساتھ سلوک بھی انتہائی بُرا برتا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا میں انصاف کے نظام کے غیر مؤثر ہو جانے کے باعث وہاں مہاجرین کو بھی انتہائی برے حالات کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس شمالی افریقی ملک میں مہاجرین کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور خواتین کو جنسی تشدد کا سامنا ہے بلکہ ساتھ ہی انہیں غلامی پر مجبور کیا جا رہا ہے اور ان کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر شیخ زید الراعد الحسین نے لیبیا میں قائم مہاجرین کے حراستی مراکز کی ابتر صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے، ’’لیبیا میں انسانی حقوق کی صورتحال بحران کا شکار ہے، جس سے ہزاروں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘
رواں برس کے آغاز سے اب تک لیبیا سے سمندری راستے کے ذریعے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار ہو چکی ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر کا تعلق نائجیریا اور اریٹریا جیسے افریقی ممالک سے بتایا جاتا ہے۔
پرخطر سمندری راستے سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے بہت سے مہاجرین کو لیبیا میں ہی گرفتار کر لیا جاتا ہے، جنہیں مختلف حراستی مراکز منتقل کر دیا جاتا ہے۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق متروک ویئر ہاؤسز میں بنائے گئے ایسے حراستی مراکز میں سات ہزار افراد کو قید رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایسے متعدد مراکز میں مہاجرین کم خوراکی کا شکار ہیں۔
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
7 تصاویر1 | 7
اس رپورٹ کے مطابق انسانوں کے اسمگلرز یورپ جانے کے خواہمشند بہت سے افراد کو قید کرتے ہیں اور ان کے گھر والوں سے تاوان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایسے افراد کے گھر والے تاوان ادا نہ کریں تو ان کے عزیزوں کو ہلاک بھی کر دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں قائم مہاجرین کے حراستی مراکز کے محافظ وہاں قید خواتین کو اجتماعی جنسی تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو ایسی باوثوق خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ انسانوں کی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے عمل میں کچھ حکومتی اہلکار بھی رشوت وصول کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے لیبیا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان مہاجرین کے حراستی مراکز میں قید تمام خواتین اور بچوں کو رہا کیا جائے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے تمام حراستی مراکز کو بھی بند کر دیا جانا چاہیے، جن کی سرپرستی حکومت کے پاس نہیں ہے۔