لیبیا: مہاجرین کو بحری جہاز سے زبردستی اتار لیا گیا
انفومائگرینٹس
22 نومبر 2018
لیبیا میں حکام نے اناسی مہاجرین کو ایک سامان بردار بحری جہاز سے جبراﹰ اتار کر مشرقی طرابلس کی ایک بندرگاہ پر منتقل کر دیا ہے۔ ان پناہ گزینوں کو بحری جہاز کے عملے نے سمندر میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔
اشتہار
یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق لیبیا کے اس اقدام پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ طرابلس حکومت کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین نے دس روز سے لنگر انداز اس جہاز سے اترنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ لیبیا میں اترنا اُن کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے۔
حال ہی میں لیبیا کی کوسٹ گارڈ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہوں نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مسئلہ حل کر لیا ہے۔
لیبیا کی کوسٹ گارڈ کے کمانڈر توفیق عسکر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا،’’ ایک مشترکہ فورس نے بحری جہاز پر ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس سے حملہ کیا اور مہاجرین کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔‘‘
عسکر کا کہنا تھا کہ بعض مہاجرین حملے کے دوران زخمی ہوئے لیکن ہسپتال میں طبی امداد فراہم ہونے کے بعد اب اُن کی حالت تسلی بخش ہے۔‘‘ عسکر نے مزید بتایا کہ کار گو جہاز سے نکالے جانے والے تمام مہاجرین کو مصراتہ شہر میں قائم ایک حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔
سو کے قریب مہاجرین جن کا تعلق زیادہ تر سوڈان اور اریٹیریا سے تھا، بحیرہ روم کے راستے یورپ جا رہے تھے کہ اُن کی کشتی لیبیا کے ساحل سے دور سمندر میں ڈوبنے لگی۔ پانامہ کے جھنڈے والے ’نوین‘ نامی ایک بحری جہاز نے کشتی پر سوار پناہ گزینوں کو امدادی کارروائی کرتے ہوئے ڈوبنے سے بچایا اور انہیں لیبیا لے جایا۔
لیبیا پہنچ کر چودہ مہاجرین تو جہاز سے اترنے پر رضامند ہو گئے لیکن باقی نے جہاز چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سمندر سے مہاجرین کو لیبیا واپس لے جانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی ایسے ہی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاز پر سوار پناہ گزینوں کی اس التجا کو مسترد کرنا کہ وہ حراستی مرکز نہیں جانا چاہتے، بد ترین اقدام ہے۔
مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے ایک بیان میں کہا ہے،’’ انسانی برادری ایسے واقعات کو قابل افسوس قرار دیتی ہے۔‘‘
یو این ایچ سی آر کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک سولہ سو کے قریب پناہ گزین یورپ جانے کی غرض سے بحیرہ روم عبور کرتے ہوئے ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ اب بھی ایک ملین کے قریب مہاجرین لیبیا میں پھنسے ہوئے ہیں۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔