1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا، مہاجر کیمپ پر حملہ، کم از کم 40 افراد ہلاک

3 جولائی 2019

امدادی کارکنوں کے مطابق لیبیا میں ایک مہاجر کیمپ پر ہونے والے فضائی حملے کے نتیجے میں کم از کم چالیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس حملے میں تقریبا اسی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Salama

انٹرنیٹ پر اس حملے کی شائع ہونے والی ویڈیوز میں خون، بکھرے ہوئے انسانی اعضا، تباہ شدہ عمارت اور مہاجرین کی پھیلی ہوئی اشیا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت طرابلس کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت نے اس حملے کی ذمہ داری لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے) کے جنرل خلیفہ حفتر پر عائد کی ہے۔ تاہم خلیفہ حفتر نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ قبل ازیں خلیفہ حفتر کی ملیشیا نے طرابلس پر شدید حملوں کا اعلان کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین نے لیبیا میں قائم اس مہاجر کیمپ میں اس فضائی حملے کی مذمت کی ہے۔ اس کیمپ میں 616 تارکین وطن اور مہاجر رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ طرابلس کی حکومت نے اقوام متحدہ سے اس حملے کی تحقیقیات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

خلیفہ حفتر کی فوج کے ترجمان نے اس حملے سے متعلق پیغامات اور فون کالز کا جواب نہیں دیا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایل این اے نے حراستی مرکز کے قریب ایک ملیشیا کیمپ پر حملہ کیا تھا۔ ایل این اے نے طرابلس کی کمزور حکومت کے خلاف اس سال اپریل میں کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ حفتر کی فوج مشرقی اور جنوبی لیبیا کے زیادہ تر حصے کو کنٹرول کرتی ہے لیکن گزشتہ ہفتے طرابلس کی حکومت کے ایک اتحادی ملیشیا گروپ کی جانب سے طرابلس سے ایک سو کلو میٹر دور گھاریان شہر پر قبضہ کر لینے سے حفتر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ گھاریان ایل این اے تک وسائل کی فراہمی کے حوالے سے اہم شہر مانا جاتا ہے۔

مہاجرین کو ہرگز لیبیا واپس نہ بھیجا جائے، یو این ایچ سی آر

لیبین نیشنل آرمی کے خلیفہ حفتر نے ترکی کو اپنا دشمن قرار دے دیا

 سابق آمر معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے لیبیا بدامنی اور سیاسی طور پر اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ طرابلس کی حکومت کے اتحادی ملیشیاؤں کا ٹھکانہ تاجورا ہے اور حفتر کی افواج گزشتہ کچھ ہفتوں سے ان پر فضائی حملے کر رہی ہے۔ ایل این اے نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے طرابلس میں دشمن افواج پر حملے گھاریان شہر پر قبضہ ختم ہونے کے بعد شروع کیے۔ اس حالیہ کشیدگی نے طرابلس میں 2011ء کے بعد تشدد کی ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ 2011ء میں پر تشدد واقعات کے نتیجے میں فوجی ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹ گیا تھا اور وہ مارے گئے تھے۔ 

جنرل حفتر کا کہنا ہے کہ وہ اس شمالی افریقی ملک میں امن قائم کرنا چاہتا ہے۔ حفتر کو مصر اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے جبکہ اس کے مخالفوں کو ترکی اور قطر کی حمایت حاصل ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں