لیبیا میں اسلحے پر کنٹرول کا معاملہ
9 دسمبر 2011افریقی ملک لیبیا میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور وہ قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ آمریت کے زوال کے بعد لیبیا کے شہروں میں بمباری اور جنگی صورت حال کے باعث ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔ اس کے لیے نئی کمٹ منٹ کے ساتھ تعمیر نو کے عمل کا آغاز کرنا بھی نئی عبوری حکومت کی اوّلین ترجیح ہے۔ قذافی کے اقتدار کے بعد وجود میں آنے والی عبوری حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔
عرب ملکوں کی تنظیم عرب لیگ پہلے ہی لیبیا کی نئی عبوری حکومت سے مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ امن و سلامتی کی صورت حال بہتر بناتے ہوئے طرابلس اور دیگر شہروں میں تعینات ٹینکوں کو ہٹانے کے علاوہ انہیں بھاری اسلحے سے پاک کرے۔ اس مناسبت سے لیبیا کی عبوری حکومت نے باغیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنا اسلحہ حکومت کو جمع کروا کر عملی زندگی کے دھارے میں شامل ہو جائیں یا پھر فوج کا حصہ بن جائیں۔
لیبیا کو غیر قانونی اسلحے سے پاک کرنے کا معاملہ بہت اہم اور حساس نوعیت کا ہے۔ ایسے میں سابقہ دشمنیاں اور مخالف گروپوں کے درمیان تناؤ بھی محسوس کیا جانے لگا ہے۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے نمائندے ڈان ڈنکن نے طرابلس میں ایک شہری سے بات کی تو وہ کہنے لگا کہ قبائلی تنازعات کے علاوہ ذاتی دشمنیوں کو بھی قذافی کے زوال کے بعد کے عرصے میں برابر کرنے کا سلسلہ جاری ہے، قذافی کے خلاف چلائی جانے والی بندوقیں جلد ہی عوام دشمنی میں فوقیت حاصل کر لیں گی۔
لیبیا کی عبوری حکومت کو جمہوریت کی جانب جاری سفر میں بہت ساری رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ قومی عبوری کونسل کے مخالفین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر مسلح افراد کا حصہ بننے سے اب گریز نہیں کر رہے۔ یہ مسلح اور حکومت مخالفین وہی لوگ ہیں جو پہلے قذافی کے خلاف ایک ساتھ ہو کر مسلح جد و جہد کا حصہ تھے لیکن یہ مختلف نظریات کے حامل لوگ ہیں، اس باعث اب ان کے مفادات میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔
یہی لوگ قذافی کی آمریت کو ختم کرنے کے بعد طرابلس کے چوراہوں میں جمع ہو کر فتح کا جشن روزانہ کی بنیادوں پر منایا کرتے تھے۔ اس مناسبت سے ڈان ڈنکن کہتے ہیں کہ آتش بازی کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، باغی فوجی اپنے بچوں کو بھاری اسلحے پر بٹھا کر ہجوم میں لانے سے گریز نہیں کرتے، پھر ان بچوں کو وہ مسرت سے فضا میں پھینک کر پکڑتے ہیں، مختلف چوراہوں میں قذافی کی بگڑی ہوئی تصاویر اور مختلف خاکے دکھائی دیتے ہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ قومی عبوری کونسل اگر جلد از جلد باغیوں کے قبضے میں موجود اسلحے پر کنٹرول حاصل نہیں کرتی تو اس کے لیے جمہوریت کی جانب سفر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ ان مسلح افراد اور عبوری کونسل کے مخالفین کی ملی بھگت انقلاب کے روشن چہرے پر سیاہی پھینکنے کے علاوہ خانہ جنگی کی صورت حال کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل