لیبیا میں جمعے کی نماز کے دوران مسجد میں دو بم دھماکے
مقبول ملک ڈی پی اے
9 فروری 2018
لیبیا کے مشرقی شہر بن غازی میں نو فروری کے روز جمعے کی نماز کے دوران نمازیوں سے بھری ایک مقامی مسجد میں دو بم دھماکے کیے گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہو گئے۔
اشتہار
بن غازی سے جمعے کی سہ پہر موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں میں سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ دوہرا بم حملہ بن غازی شہر کے مرکزی علاقے الماجوری میں نمازیوں سے بھری ایک مسجد میں جمعے کی نماز کے دوران کیا گیا، جس میں فوری طور پر ایک شخص کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد کم از کم بھی 37 ہے۔ یہ بم دھماکے ایک موبائل فون کو ریموٹ کنٹرول کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کیے گئے۔
طبی ذرائع کے مطابق ان درجنوں زخمیوں میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے اور اسی لیے خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی۔ لیبیا کے اسی شہر میں ابھی صرف دو ہفتے قبل بھی دو ایسے بڑے کار بم دھماکے ہوئے تھے، جن میں کم از کم 35 افراد مارے گئے تھے اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ جنوری کے آخری عشرے میں یہ دھماکے بھی بن غازی کے وسطی علاقے میں ایک مسجد کے عین سامنے کیے گئے تھے۔
بن غازی شہر کی لیبیا میں سیاسی اور سماجی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2011ء میں عشروں تک اقتدار میں رہنے والے رہنما معمر قذافی کے خلاف عوامی مظاہروں کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا۔ پھر یہ مظاہرے پھیل کر خانہ جنگی کی شکل اختیا رکر گئے تھے اور بن غازی کی طرح پورا لیبیا بھی شدید انتشار کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔
قذافی کے دور اقتدار کے بعد کچھ عرصے تک اس شمالی افریقی ملک کا زیادہ تر حصہ مختلف شدت پسند، اسلام پسند مسلح گروپوں کے اتحاد کے کنٹرول میں بھی رہا تھا۔ گزشتہ برس بن غازی شہر کا انتظام مشرقی لیبیا کے وسیع تر علاقوں پر کنٹرول کے حامل فوجی رہنما خلیفہ حفتر کے دستوں نے سنبھال لیا تھا۔
لیبیا کے عوام معمول کی زندگی کے خواہاں
02:54
بن غازی لیبیا کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے، جس پر فوجی کمانڈر خلیفہ حفتر کی قیادت میں لیبیائی نیشنل آرمی یا ایل این اے کو کنٹرول تو حاصل ہے لیکن وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش اور القاعدہ سے منسلک کئی فعال شدت پسند مسلم گروہ ابھی تک موجود ہیں، جن کے خلاف نیشنل آرمی کے دستے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کے مطابق بن غازی میں یہ بم حملے زیادہ تر انہی شدت پسند گروہوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔
خلیفہ حفتر کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ ان قومی انتخابات کے نتیجے میں اعلیٰ ترین ریاستی یا حکومتی عہدے کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر اسی سال کے اواخر تک کرائے جائیں گے۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔