’لیبیا میں روسی واگنر گروپ کے کرائے کے قاتل بھی لڑ رہے ہیں‘
7 مئی 2020
اقوام متحدہ کے تفتیشی ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک لیبیا میں روس کے واگنر گروپ سے تعلق رکھنے والے کرائے کے سینکڑوں قاتل بھی لڑ رہے ہیں۔ کرائے کے یہ فوجی لیبیا کے جنگی سردار خلیفہ حفتر کے حمایتی ہیں۔
اشتہار
کئی مختلف سفارتی ذرائع کے مطابق یہ خفیہ رپورٹ اقوام متحدہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کی جو تفصیلات سفارتی ذرائع نے مہیا کیں، ان کے مطابق روس کی ایک سکیورٹی کمپنی کا نام واگنر گروپ ہے، جس کے غیر سرکاری نیم عسکری اہلکار لیبیا کی خانہ جنگی میں شامل ہیں۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
کرائے کے یہ جنگجو خلیفہ حفتر کے دستوں کے شانہ بشانہ طرابلس میں لیبیا کی قومی وحدت کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
لیبیا کی یونٹی حکومت کو اقوام متحدہ اس شمالی افریقی ملک کی نمائندہ حکومت تسلیم کر چکا ہے۔
عالمی ادارے کے ماہرین کی تیار کردہ اس داخلی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''ماہرین کا یہ تفتیشی گروپ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ لیبیا میں واگنر گروپ کے نجی مسلح جنگجو اکتوبر سن دو ہزار اٹھارہ سے اب تک موجود ہیں اور خانہ جنگی میں حصہ لے رہے ہیں۔‘‘
کرائے کے روسی فوجی کرتے کیا ہیں؟
سفارتی ذرائع کے مطابق یہ روسی سکیورٹی کمپنی لیبیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔
اس ادارے کے اجرتی جنگجو کئی طرح کے فرائض انجام دیتے ہیں، جن میں تکنیکی مدد، فضائی نگرانی کے امور میں تعاون، الیکٹرانک دفاعی نظاموں کو فعال رکھنا اور گھات لگا کر نشانہ بنانے والے سنائپرز کے طور پر کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ لیبیا میں کرائے کے ان فوجیوں کی سرگرمیوں سے بہت طاقت ور سمجھے جانے والے جنگی سردار اور جنرل خلیفہ حفتر کی عسکری طاقت میں 'مؤثر اضافہ‘ ہوا ہے۔
کرائے کے روسی جنگجوؤں کی تعداد کتنی؟
اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق اس امر کی غیر جانبدارانہ تصدیق انتہائی مشکل ہے کہ لیبیا میں روس کے کرائے کے ان غیر سرکاری جنگجؤوں کی حقیقی تعداد کتنی ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے محتاط اندازوں کے مطابق بھی ان کی تعداد 800 اور 1200 کے درمیان تک ہو سکتی ہے۔
عالمی ادارے کے مبصرین کے مطابق لییا میں روس کے واگنر گروپ کے ایسے مسلح افراد میں سے کم از کم بھی 122 ایسے ہیں، جو لیبیا میں جاری مسلح جھڑپوں میں براہ راست شامل رہے ہیں۔ ان میں سے 39 کا تعلق واگنر گروپ کے ایک خصوصی سنائپر یونٹ سے بتایا گیا ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 2018 سے لے کر 2019 تک عالمی ادارے کے مبصرین نے ہوائی جہازوں کی ایسی درجنوں پروازوں کی شناخت بھی کی تھی، جو ماسکو سے اپنا سفر شروع کر کے مشرقی لیبیا میں مختلف فضائی اڈوں پر اتری تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پروازیں یا تو خود واگنر گروپ کی طرف سے یا اس کے ایما پر عمل میں لائی گئی تھیں۔ حالانکہ تب بھی اقوام متحدہ نے لیبیا کو کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
واگنر گروپ ہے کیا؟
واگنر گروپ روس کا ایک نجی سکیورٹی ادارہ ہے، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے سرکردہ افراد روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی حلقوں میں شامل ہیں۔ مجموعی طور پر واگنر گروپ کے ہزاروں مسلح ارکان روس سے باہر دنیا کے کئی علاقوں میں جاری تنازعات میں شامل ہیں۔ ان مسلح تنازعات اور بحران زدہ علاقوں میں شام اور یوکرائن سے لے کر وسطی افریقی جمہوریہ تک شامل ہیں۔
لیبیا: پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہوا
تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا کبھی شمالی افریقہ کا امیر ترین ملک تھا۔ لیکن اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے حصوں میں پینے کے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
بنیادی سہولیات کی کمی
لیبیا میں پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے اس حصے میں پانی فراہم کرنے والے 149 پائپوں میں سے 101 تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
ماڈرن واٹر پائپ لائن سسٹم میں خرابی
لیبیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ سابق آمر معمر قذافی نے اسی کی دہائی میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں پائپ لائن سسٹم بچھایا تھا، جسے ’گریٹ مین میڈ ریور‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیبیا کی ستر فیصد آبادی کو صاف پانی اسی نظام کے تحت فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ نظام زوال کا شکار ہے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
خانہ جنگی اور افراتفری
سن دو ہزار گیارہ میں قذافی کو زوال کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تب سے یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طرابلس حکومت کمزور ہے اور ملک کے سبھی حصوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔ دوسری جانب جنرل خلیفہ حفتر کی فوج ملک کے تمام بڑے مشرقی حصوں پر قابض ہے۔
تصویر: AFP/M. Turkia
نشانہ طرابلس ہے
خلیفہ حفتر کی فوج (ایل این اے) مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے واٹر پائپ لائن کو استعمال کرتی ہے۔ مئی میں خلیفہ حفتر کے حامی جنگجوؤں نے واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرتے ہوئے ملازمین کو پانی بند کرنے پر مجبور کیا۔ ایک قیدی کی رہائی کے لیے دو دن طرابلس کا پانی بند رکھا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
پانی بطور جنگی ہتھیار
یہ صرف مسلح گروپ ہی نہیں ہیں جو پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جو پائپوں پر لگے تانبے کے ویل ہیڈز چرا لیتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے فریقین کو خبردار کر رکھاہے کہ پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
صحت کے مسائل
یونیسیف کے ترجمان مصطفیٰ عمر کے مطابق اگر ان مسائل کا کوئی حل نہ ڈھونڈا گیا تو مستقبل میں لیبیا کے چالیس لاکھ باشندوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اے اور ہیضے جیسی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
پانی بھی قابل استعمال نہیں
لیبیا کے بہت سے حصوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہے۔ بیکڑیا یا نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں۔ اکثر اس پانی کو پینے سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
7 تصاویر1 | 7
تجزیہ کاروں کے مطابق ایک تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ روس میں چند صحافیوں نے پیشہ وارانہ چھان بین کرتے ہوئے یہ پتا چلانے کی کوشش کی تھی کہ آیا ان کے ملک سے کرائے کے قاتلوں کو مبینہ طور پر وسطی افریقی جمہوریہ بھیجا گیا تھا۔
لیکن 2018ء میں ایسے تین روسی صحافیوں کو ان کے فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے لیبیا میں کرائے روسی قاتلوں کی مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ روس کا واگنر گروپ لیبیا میں 'کریملن کی سیاست کے لیے آلہ کار‘ کا کام کر رہا ہے۔
لیبیا میں شامی ملیشیا گروہ بھی فعال
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ داخلی رپورٹ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو گزشتہ ماہ 24 اپریل کو پیش کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں عالمی ادارے کے تفتیشی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ خلیفہ حفتر کے دستوں کی صفوں میں سے مختلف شامی ملیشیا گروپوں کے جنگجو بھی لیبیا کی خانہ جنگی میں حصہ لے رہے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق یہ بات واضح نہیں کہ لیبیا میں ان ملیشیا ارکان کو تربیت کون فراہم کرتا ہے یا ان کے لیے مالی وسائل کون مہیا کر رہا ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اس سال کے آغاز سے اب تک شام کی ایک نجی فضائی کمپنی کم از کم 33 پروازوں کے ذریعے ایسے دو ہزار کے قریب جنگجوؤں کو لیبیا پہنچا چکی ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔