1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں طوفان کے سبب ہزاروں افراد کی ہلاکت کا خدشہ

12 ستمبر 2023

بحیرہ روم میں آنے والے طوفان 'ڈینیئل' نے لیبیا کے مشرقی شہر درنہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ سیلابی ریلہ عمارتوں اور لوگوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ ہزاروں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

لیبیا کے رہنما اسامہ حماد نے بتایا کہ دو ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے جب کہ پانچ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں
لیبیا کے رہنما اسامہ حماد نے بتایا کہ دو ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے جب کہ پانچ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیںتصویر: AA/picture alliance

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشرقی لیبیا میں ہونے والی موسلا دھار بارش کی وجہ سے عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور تقریباً پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ حکام نے درنہ شہر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی تعاون کی اپیل کی ہے کیونکہ مقامی امدادی ٹیمیں متاثرہ علاقوں تک پہنچنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔

لیبیا کے رہنما اسامہ حماد نے بتایا کہ دو ہزار افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے جب کہ پانچ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں۔ خیال رہے کہ مشرقی لیبیا پر اسامہ حماد کی لیبیئن نیشنل آرمی کا کنٹرول ہے، جو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کی مخالفت کرتی ہے۔

مسلح دھڑوں کے تصادم سے لیبیا کا دارالحکومت طرابلس لرز اٹھا

لیبیئن نیشنل آرمی کے ترجمان احمد مسماری کے مطابق شہر کے باہر کے دو ڈیم ٹوٹ جانے کے بعد درنہ شہر کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا گیا ہے، ''پانی سمندر آس پاس کے علاقوں کے تمام مکینوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔‘‘

لیبیا میں بین الاقوامی ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹی (آئی ایف آر سی) کے سربراہ تمر رمضان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ شمالی افریقی ملک بڑے پیمانے کی تباہی کا سامنا کر رہا ہے، جس کا مقابلہ کرنا لیبیا کی حکومت کے بس میں نہیں۔‘‘

بین الاقوامی ریڈ کراس اور ہلال احمر سوسائٹی نے بتایا کہ لیبیا جس بڑے پیمانے کی تباہی کا سامنا کر رہا ہے، اس کا مقابلہ کرنا حکومت کے بس میں نہیںتصویر: AA/picture alliance

ہمیں اب تک کیا معلوم ہے؟

ایک سرکاری اہلکار نے پیر کے روز 61 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی لیکن اس میں درنہ میں ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں تھیں کیونکہ وہاں تک فی الحال رسائی ممکن نہیں۔درنہ میں کم از کم 150 افراد کی ہلاکتوں کا خدشہ ہے لیکن امدادی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 250 تک پہنچ سکتی ہے۔

ایک سرکاری ترجمان محمد مسعود کا کہنا تھا، ''کم از کم 150 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ حکومتی اور نجی املاک کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔‘‘

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ کار جارجٹ گیگنن نے بتایا کہ درجنوں دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی بنیادی ڈھانچے کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جانی نقصان ہوا ہے۔

لیبیا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی  کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نہیں ہو سکیتصویر: Anadolu Agency/picture alliance

امداد کا سلسلہ شروع

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طرابلس کی حکومت نے دیگر ممالک سے امداد کی اپیل کی ہے۔ تین رکنی صدارتی کونسل نے ایک بیان میں کہا، "ہم برادر اور دوست ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔"

ترکی نے پیر کی رات کو ہی امدادی کارکنوں کے ساتھ تین طیارے روانہ کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید ا لنہیان نے بھی مشرقی لیبیا میں امدادی ٹیمیں بھیجنے کا وعدہ کیا۔ ہمسایہ ممالک الجزائر اور مصر کی حکومتوں نے بھی اس تباہی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

جنگ زدہ ملک لیبیا میں صوفی ثقافتی مقامات کی تباہی

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ واشنگٹن اقوام متحدہ اور لیبیا کے حکام کے ساتھ مل کر  امدادی کاموں میں مدد کر رہا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے لیبیا کے عوام کے ساتھ یگانگت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ہنگامی امداد فراہم کرنے کے  لیے اقدامات کر رہا ہے۔

آئی ایف آر سی کے سربراہ رمضان نے کہا، "طرابلس میں حکومت متاثرہ آبادی کو بچانے میں مدد کے لیے طبی امداد اور طبی قافلے مشرق میں بھیجے گی۔"

موسلا دھار بارش کی وجہ سے عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں اور تقریباً پانی میں ڈوبی ہوئی ہیںتصویر: Emhmmed Mohamed Kshiem/AA/picture alliance

بنیادی ڈھانچے برسوں سے نظر انداز

لیبیا کے مشرقی علاقے میں حکومت بین الاقوامی سطح پرتسلیم شدہ نہیں ہے لیکن جنرل خلیفہ حفتر کی لیبیئن نیشنل آرمی (ایل این اے)کے زیر کنٹرول ملک کے مختلف حصوں پر اس کی حکمرانی ہے۔ ایل این اے بھی امدادی کارروائیوں میں شامل ہے۔

درنہ شہر پہلے اسلامی شدت پسندوں کے قبضے میں تھا۔ لیبیا میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی  کی وجہ سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نہیں ہو سکی اور موجود بنیادی ڈھانچوں کو کافی نقصان بھی پہنچا ہے۔

یہ ملک اسی وقت سے بدامنی کا شکار ہے جب سن 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد ملک کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کو قتل کر دیا گیا تھا۔

 ج ا/     (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں