لیبیا میں غیرسرکاری کرنسی کی گردش، اصل دینار مشکل میں
3 اگست 2024
لیبیا میں امریکی ڈالروں کے حصول کے لیے سرکاری کرنسی دینار کی بجائے غیرسرکاری کرنسی چل رہی ہے۔ اس لیے دینا کی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ غیرقانونی طور پر چھاپے جانے والے کرنسی نوٹ لیبیا میں ڈالروں کی لین دین کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے لیبیا کی اصل کرنسی دینار شدید دباؤ کا شکار ہے۔ روئٹرز کے مطابق ان غیرقانونی نوٹوں میں سے بعض روس میں بھی چھاپے گئے اور انہیں لیبیا برآمد کیا گیا جب کہ کچھ غیرقانونی نوٹ لیبیا میں بھی چھپے۔
لیبیا کا طرابلس میں قائم مرکزی بینک ان نئے بینک نوٹوں کو جعلی قرار دیتا ہے جب کہ لیبیا کے مشرق میں قائم متوازی حکومت ان نوٹوں کو سرمایے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
روئٹرز نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ غیرقانونی کرنسیلیبیا اور ساحل کے علاقےمیں کرایے کے روسی فوجیوں کو بھی ادا کی جا رہی ہے جب کہ یہی کرنسی شہری ڈھانچے کے متعدد منصوبوں کے لیے بھی بہ طور سرمایہ استعمال ہو رہی ہے۔
روئٹرز کے مطابق بین الاقوامی تفتیشی اور پالیسی گروپ سینٹری روس پر ان نئے بینک نوٹوں سے تعلق کا الزام عائد کرتا ہے، تاہم اس بابت نہ طرابلس میں قائم لیبیا کے مرکزی بینک نے کوئی بات کی ہے اور نہ مشرقی شہر بن غازی میں قائم اس کی مشرقی شاخ نے۔
مشرقی لیبیا پر عمل داری رکھنے والی لیبین نیشنل آرمی نے بھی اس معاملے پر کسی تبصرے سے احتراز برتا ہے جب کہ روس کے سرکاری کرنسی چھاپے خانے گوزناک نے بھی روئٹرز کو تحریری درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ لیبیا دو ہزار چودہ سے مشرقی اور مغربی قوتوں کے درمیان منتقسم ہے جب کہ سن دو ہزار بیس میں سیاسی استحکام کے لیے بین الاقوامی ثالثی اور امن ڈیل کے باوجود عملی طور پر یہ تقسیم موجود نظر آتی ہے۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
رواں برس جون میں امریکی محکمہ ء خارجہ نے روسی ادارے گوزناک پر ایک ارب امریکی ڈالر کے غیرقانونی لیبین نوٹ چھاپنے کے تناظر میں پابندیاں عائد کی تھیں۔ تاہم محکمہ خارجہ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ نوٹ کب اور کہاں پرنٹ ہوئے۔
واضح رہے کہ روس سن دو ہزار سولہ سے دو ہزار بیس کے درمیان لیبیا کے مشرقی حصے پر قابض دھڑے کو کئی ارب ڈالر دینار ارسال کیے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ بن غازی میں خلیفہ حفتر کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہے۔