لیبیا میں فوجی مداخلت: یورپ منقسم
18 مارچ 2011فرانس وہ پہلا ملک تھا جس نے معمر قذافی کی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے لیبیا میں حکومت مخالف قوتوں کو تسلیم کیا تھا۔ قذافی کی طرف سے اپنی ہی عوام کے خلاف بھاری اسلحہ اور فضائی کارروائی کے بعد عالمی طاقتوں کے درمیان یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ قذافی کے ظلم کو روکنے کے لیے فوجی مداخلت کتنی ضرروی ہو چکی ہے۔
برطانیہ اور فرانس دو ایسے ملک تھے، جنہوں نے بھر پور کوشش کی کہ لیبیا میں نو فلائی زون قائم کر دیا جائے۔ ایک طویل بحث کے بعد بالآخر سلامتی کونسل نے جمعرات کونو فلائی زون کے قیام کے ساتھ ساتھ محدود فوجی مداخلت کی اجازت دے ہی دی۔ تاہم سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ممالک میں سے جرمنی سمیت روس ، بھارت اور چین نے اس ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔ جبکہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ اس حوالے سے پیش پیش رہے۔
یورپی خارجہ معاملات کے تناظر میں فرانس اور جرمنی انتہائی اہم حلیف سمجھے جاتے ہیں تاہم اب لیبیا کے معاملے پر دونوں میں اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جرمنی کی طرف سے لیبیا میں فوجی مداخلت سے انکار کی ایک وجہ اس کا اپنا ماضی یقینی طور پر ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف جرمن چانسلر انگیلا میرکل ستائیس مارچ کے اہم علاقائی انتخابات سے قبل عوامی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی ہیں۔
گزشتہ برس دفاعی شعبے میں تعاون کا ایک اہم معاہدے کرنے والے یورپی ممالک برطانیہ اور فرانس امریکہ کے ہمراہ ، معمر قذافی کے خلاف فوجی مداخلت میں پیش پیش رہیں گے۔ سلامتی کونسل کے مطابق لیبیا میں زمینی فوجی دستے نہیں بھیجے جائیں گے لیکن فضائی کارروائی ضرور کی جائے گی۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین