لیبیا میں قذافی کے حامی ’حتمی معرکے‘ کے لیے تیار
17 مارچ 2011معمر قذافی کا تازہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملکی فوج نے حکومت مخالفین کو ان کے مضبوط ترین گڑھ، بن غازی شہر کی جانب فرار پر مجبور کردیا ہے۔ قذافی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سمیت ہر اس شخص، ادارے اور ملک کے مطالبے کو ٹھکرا دیا ہے جو ان کی افواج سے جنگ بندی کا کہہ رہا ہے۔
گزشتہ روز ملکی ٹیلی وژن پر نشر کیے گئے بیان میں قذافی نے کہا، ’’ جنگ آج ’بدھ کو‘ مصراتہ میں شروع ہوگی اور کل فیصلہ کن جنگ ہوگی۔‘‘ دارالحکومت طرابلس سے 90 میل کے فاصلے پر واقع مصراتہ لیبیا کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ قذافی نے مصراتہ میں اپنے سویلین حامیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھالیں اور اس حتمی معرکے کے لیے کمر کس لیں۔ قذافی کا کہنا تھا، ’’ مصراتہ کو چند پاگلوں کے ہاتھوں یرغمال نہ چھوڑا جائے۔‘‘
لیبیا کا سرکاری میڈیا واضح کرچکا ہے کہ فوج جلد ہی بن غازی کی جانب بڑھ جائے گی جبکہ قذافی کے بیٹے سیف الاسلام بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ 48 گھنٹوں میں بغاوت ختم کردی جائے گی۔ مصراتہ میں حکومت مخالفین کے ایک ترجمان کے بقول انہوں نے بدھ کو قذافی کے حامیوں کا ایک حملہ ناکام بنایا جس دوران چار ہلاکتیں ہوئیں۔ بن غازی جانے والی شاہراہ پر بسے شہر اجدابیہ سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق دو روز میں لگ بھگ 30 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں اور قذافی کے مخالفین کی ہے۔
دوسری طرف نیویارک سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ نے بن غازی پر بمباری سے متعلق شدید خدشات ظاہر کیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے جاری کردہ بیان میں فریقین سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل 26 فروری کو سلامتی کونسل نے ایک قرار دار کے ذریعے قذافی کی انتظامیہ کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی خطے کے دورے پر ہیں۔ بدھ کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت لیبیا کے معصوم شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: افسر اعوان