لیبیا میں مہاجرین کے خلاف جنسی تشدد
27 مارچ 2019لیبیا میں قید، استحصال، تشدد اور بدسلوکی کا ایک ایسا سلسلہ جاری ہے، جس کے خاتمے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اس ملک میں بین الاقوامی امدادی تنظیم ویمن ریفیوجی کمیشن کی تازہ رپورٹ بھی اس موقف کی تائید کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے اندازوں کے مطابق اس شمالی افریقی ملک میں تقریباﹰ چھ لاکھ ستر ہزار مہاجرین موجود ہیں۔ اندازوں کے مطابق ان میں سے پانچ سے چھ ہزار تک افراد مختلف کیمپوں میں قید ہیں۔
ویمن ریفیوجی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کی مصنفہ سارا چینووتھ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لیبیا کے ان کیمپوں میں جبر حتیٰ کہ جنسی تشدد بھی عام سی بات ہے، ’’اس عمل کی ویڈیوز بھی بنائی جاتی ہیں تاکہ متاثرہ مہاجرین کو بلیک میل کیا جا سکے اور وہ اپنے رشتہ داروں سے اپنی رہائی کے لیے تاوان کی رقوم منگوائیں۔ جو تارکین وطن رقوم ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انہیں یا تو آگے کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دیا جاتا ہے یا پھر وہ ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
سارا چینووتھ کا کہنا تھا کہ جن جن طریقوں سے تشدد کیا جاتا ہے، وہ ناقابل بیان اور ناقابل برداشت ہیں۔ مردوں اور عورتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائیں، مردوں کے اعضائے مخصوصہ کاٹ دیے جاتے ہیں، خواتین کو اتنی دیر تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ بہت زیادہ خون بہنے سے ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایک کیمپ سے رہائی پانے والی گیمبیا کی ایک خاتون کا کہنا تھا، ’’اگر یہ پہلے کسی نے مجھے بتایا ہوتا تو میں اس پر کبھی یقین نہ کرتی۔ اس کا یقین اسی وقت آتا ہے، جب یہ سب کچھ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ میں منظر عام پر آنے والے واقعات نئے نہیں ہیں لیکن کسی رپورٹ میں ایسی تفصیلات پہلی مرتبہ بیان کی گئی ہیں۔ جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی حمایت کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیم ’پرو ازُیول‘ سے منسلک کارل کوپ کا کہنا ہے، ’’انسانی حقوق کی یہ شدید ترین خلاف ورزیاں یورپی یونین کے مقامی پارٹنرز کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ اسی بات کو ایک بار پھر سامنے لایا جا رہا ہے۔‘‘
لیبیا کے کوسٹ گارڈز مہاجرین کو پکڑتے ہیں اور کیمپوں میں لے آتے ہیں۔ انسانوں کے اسمگلروں کا منافع کم ہو کر رہ گیا ہے اور اب وہ اپنی کمائی کے لیے مہاجرین کو بلیک میل کرتے ہیں۔ کارل کوپ کہتے ہیں، ’’لیبیا میں ہمارے کیمپ ہیں، تسلیم شدہ حکومت کے کیمپ، جو یورپی رقوم سے چلائے جاتے ہیں۔ وہاں انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔‘‘
کوپ کا الزام عائد کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ یہ سب کچھ یورپ کے نام پر ہو رہا ہے اور یورپی ممالک نے لیبیا کے حکام سے باقاعدہ معاہدہ کر رکھا ہے۔ جب یورپ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ لیبیا میں انسانوں کی خرید و فروخت جاری ہے، تو کئی یورپی ممالک نے وعدہ کیا تھا کہ متاثرہ مہاجرین کو وہاں سے نکالا جائے گا اور قانونی طریقے سے یورپ لایا جائے گا۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیم ’پرو ازُیول‘ کا کہنا ہے، ’’یہ عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے اور دوسری جانب زیادہ تر یورپی ممالک ایسے تارکین وطن کو قبول کرنے پر تیار بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مہاجرین کو ابھی تک لیبیا کے انہی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ یورپی یونین کی مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق سیاست سے جڑا ہوا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ دوسری جانب سارا چینووتھ کہتی ہیں، ’’لیبیا کے مقامی ملیشیا گروہ ان مہاجرین کو بطور انسان نہیں بلکہ بطور ڈالر دیکھتے ہیں۔ ان کو ’اشیاء‘ سمجھا جاتا ہے اور خود مقامی حکام بھی ان کے استحصال سے گریزاں نہیں ہیں۔‘‘
ا ا / م م