1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا میں کئی ٹن یورینیم غائب، آئی اے ای اے کا اظہار تشویش

16 مارچ 2023

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق لیبیا میں کئی ٹن یورینیم غائب ہوگئی ہے جس سے "تابکاری کے خطرات" پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسے کوئی اندازہ نہیں کہ یورینیم کس نے غائب کی۔

Wien, Österreich | IAEA
تصویر: Lisa Leutner/AP/picture alliance

دنیا بھر میں جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے بدھ کے روز بتایا کہ لیبیا  کے ایک مقام سے تقریباً ڈھائی ٹن خام یورینیم غائب ہیں۔

آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس گمشدگی کا علم ایک معائنے کے دوران ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اصل میں یہ معائنہ پچھلے سال ہونا تھا، لیکن علاقے کی سلامتی سے متعلق صورت حال کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا تھا اور بالآخر یہ معائنہ منگل کے روز کیا گیا۔

قزاقستان: دنیا بھر میں یورینیم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 10 ڈرموں میں خام حالت میں موجود یورینیم، جس کے متعلق لیبیا نے بتایا تھا کہ اسے اس مقام پر ذخیرہ کیا جا رہا ہے، وہاں موجود نہیں تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی توانائی کا ادارہ اس مقام سے یورینیم کو ہٹانے کے حالات کا تعین کرنے کے لیے مزید کارروائیاں کرے گا۔ تاہم اس جگہ کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ گمشدہ یورینیم اب کہاں ہے۔

پاکستان غالباً ایک نیا جوہری مرکز بنا رہا ہے، مغربی ماہرین

آئی اے ای اے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ"جوہری مواد کے موجودہ مقام کے متعلق معلومات نہ ہونے سے تابکاری پھیلنے اور جوہری سلامتی کے خدشات" پیدا ہو سکتے ہیں۔ بیان کے مطابق جوہری ذخیرے کے مقام تک پہنچنے کے لیے نقل و حرکت کے جدید وسائل کی ضرورت ہے۔

لیبیا میں نیٹو کی حمایت یافتہ سن 2011میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں معمر قذافی کی حکومت معزول ہو گئی اور ملک میں بدامنی پھیل گئیتصویر: Thomas Imo/photothek/IMAGO

لیبیا میں بدامنی

سن 2003 میں لیبیا  کے اس وقت کے صدر معمر قذافی کی حکومت نے اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام ختم کر دیا تھا، جس کے لیے اس نے یورینیم افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز کے ساتھ ساتھ جوہری بم کے ڈیزائن کے متعلق بھی معلومات جمع کی تھیں۔ تاہم اس جانب لیبیا کی پیش رفت بہت ہی معمولی نوعیت کی تھی۔ قذافی نے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کو ان کے معائنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔

لیبیا میں نیٹو کی حمایت یافتہ سن 2011میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں معمر قذافی کی حکومت معزول ہو گئی اور ملک میں بدامنی پھیل گئی۔

لیبیا دوبارہ سیاسی انتشار کی دلدل میں اُترتا ہوا

اسکے بعد سے ملک کا سیاسی کنٹرول دو حریف مشرقی اور مغربی دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ دارالحکومت ترپولی پر عبوری حکومت کا کنٹرول ہے جب کہ مشرقی علاقہ فوجی سردار خلیفہ حفتر کی حمایت والی حکومت کے قبضے میں ہے۔

اقوام متحدہ کی حمایت میں ایک امن منصوبے کے تحت سن 2021 کے آغاز میں عبوری حکومت قائم ہوئی، جسے اسی سال دسمبر میں انتخابات کروانے تھے لیکن وہ انتخابات اب تک نہیں ہو سکے ہیں۔

لیبیا کے عوام معمول کی زندگی کے خواہاں

02:54

This browser does not support the video element.

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں