لیبیا: نہ حملے کام آ رہے ہیں، نہ سفارت کاری
22 جولائی 2011سفارت کاری کے حوالے سے صورتِ حال کس قدر غیر یقینی ہو گئی ہے، اس کا اندازہ بدھ کو فرانس کے اس اعلان سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر قذافی اقتدار چھوڑ دیں، تو وہ لیبیا میں رہ سکتے ہیں حالانکہ فرانس وہ ملک ہے، جو قذافی کی فورسز پر اتحادی فوجوں کے حملوں میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔
فرانسیسی وزیر خارجہ الاں ژوپے کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجویز اپوزیشن کے اُن بہت سے باغیوں کو قطعاً پسند نہیں آئی ہو گی، جن کا اصرار ہے کہ قذافی نہ صرف اپنے اکتالیس سالہ دورِ اقتدار کو انجام تک پہنچائیں بلکہ ملک بھی چھوڑ دیں۔
ژوپے کے اس بیان سے سب سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لیبیا میں عوامی بغاوت شروع ہونے کے پانچ ماہ بعد اور نیٹو فضائی حملے شروع ہونے کے چار ماہ بعد بھی قذافی کی طرف سے ہونے والی مزاحمت نے کیسے مغربی دُنیا کے مقاصد پر پانی پھیر دیا ہے۔
یہی ژوپے تھے، جنہوں نے 24 فروری کو ایک بیان میں یہ کہا تھا:’’مَیں دل کی گہرائی سے یہ امید کرتا ہوں کہ قذافی ایک لیڈر کے طور پر اپنے آخری لمحات گزار رہے ہیں۔‘‘
مغربی دُنیا کی توقعات جتنی سادہ ہوں گی، اتنا ہی قذافی اس قابل ہوں گے کہ کوئی ایسا سمجھوتہ کر سکیں، جو خود اُن کے لیے زیادہ قابل قبول ہو۔
برطانیہ میں قائم مشاورتی ادارے کراس بارڈر انفارمیشن کے چیئرمین اور لیبیا کے امور کے تجربہ کار ماہر جان مارکس کے خیال میں ژوپے کے تازہ بیان کے بعد قذافی یہ سوچیں گے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی صفوں میں پائی جانے والی خلیج کو مزید وسیع کر سکتے ہیں۔
لیبیا کی اپوزیشن کے ایک رکن اور صحافی عاشور شامیس کے خیال میں یہ تصور کرنا محال ہے کہ کئی برسوں کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک پر برسرِ اقتدار رہنے والے قذافی لیبیا ہی میں مقیم رہنے کی صورت میں ریٹائرمنٹ کی زندگی ’خاموشی سے اور بغیر کوئی ہنگامہ کھڑا کیے‘ گزاریں گے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ