’لیبیا نے این جی اورز کو مہاجرین کو بچانے کی اجازت نہ دی‘
7 مئی 2018
لیبیا کے ساحلی محافظوں نے دو غیر سرکاری اداروں کی امدادی کشتیوں کو امدادی کام سے روک دیا۔ یہ کشتیاں ایک ایسی کشتی کو بچانا چاہتی تھیں، جو مہاجرین سے کچھا کھچ بھری ہوئی تھی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنے ایک فوٹو گرافر کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کے دن لیبیا کی ساحلی حدود میں مہاجرین کی ایک کشتی کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد غیر سرکاری اداروں ایس او ایس اور ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی دو کشتیاں فوری طور پر مدد کو روانہ کر دی گئیں۔ تاہم لیبیا کے ساحلی محافظوں نے ان امدادی کشتیوں کو پیچھے چلے جانے کا حکم دے دیا۔
جب ترک ساحلی محافظوں نے مہاجرین کو یونان جانے سے روکا
01:17
بتایا گیا ہے کہ اطالوی کوسٹ گارڈز نے ان غیر سرکاری اداروں کو بتایا تھا کہ وہ لیبیا کی ساحلی حدود میں موجود مہاجرین کی اس کشتی کی مدد کو پہنچیں۔ تاہم طرابلس حکومت نے انہیں امدادی کارروائیوں سے روک دیا۔ بتایا گیا ہے کہ جب لیبیا کے ساحلی محافظ مہاجرین کی کشتی کے پاس پہنچے تو کئی مہاجرین نے گرفتاری سے بچنے کی خاطر سمندر میں ہی چھلانگ لگا دی۔
اے ایف پی نے میڈیا رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ لیبیا کے ساحلی محافظوں نے اتوار کے دن مختلف کارروائیوں میں تین سو مہاجرین کو بچا لیا جبکہ اس دوران ایک شخص ہلاک بھی ہوا۔ اطلاعات کے مطابق اس واقعے کے نتیجے میں تین مہاجرین ابھی تک لاپتہ ہیں۔
لیبیا کی بحریہ کے ترجمان جنرل ایوب قاسم نے پیر کے دن میڈٰیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس امدادی آپریشن میں بچائے جانے والے مہاجرین میں اکیس خواتین اور چار بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر غیر سرکاری اداروں کی کشتیاں لیبیا کی ساحلی حدود میں مستقبل میں مہاجرین کی کشتیوں کو ریسکیو کرنے کی کوشش کریں گی تو کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔
لیبیا کے ساحلی محافظوں نے ماضی میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ یہ غیر سرکاری ادارے (این جی اوز) مہاجرین کی کشتیوں کی امدادی کارروائیوں کے دوران خوف اور بے چینی پھیلانے کا سبب بنے تھے۔
دوسری طرف این جی اوز ان الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لیبیا کے ساحلی محافظ امدادی کاموں کے دوران ہی ان کشتیوں میں سوار مہاجرین کو ’پیٹتے اور دھمکاتے‘ ہیں، جس کے باعث سمندر کے کھلے پانیوں میں موجود ان کشتیوں کے مسافروں میں خوف وہراس پھیل جاتا ہے اور یہاں تک کہ کچھ مہاجرین سمندر کودنے پر مجبور بھی ہو جاتے ہیں۔
ع ب / ش ح / اے ایف پی
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔