لیبیا: وزیر خارجہ کی معطلی کی کوشش ، سیاسی بحران میں اضافہ
8 نومبر 2021
لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دیبہ کا کہنا ہے کہ نئی تشکیل شدہ صدارتی کونسل کو وزیر خارجہ نجلا المنقوش کو معطل کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ پر ’’انتظامی امور کی خلاف ورزیوں‘‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
اشتہار
لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دیبہ کے دفتر نے سات نومبر اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس برس فروری میں ملک کی جو نئی صدارتی کونسل تشکیل دی گئی تھی، اسے وزیر خارجہ نجلا المنقوش سمیت کسی بھی وزیر کو معطل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
یہ بیان کونسل کے سربراہ محمد المنفی کے اس اعلان کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے وزیر خارجہ نجلا المنقوش کو کونسل سے 14 روز کے لیے معطل کرنے اور ان کے سفر پر پابندی عائد کرنے کی بات کی تھی۔ آئندہ جمعے کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں لیبیا کے موضوع پر ایک بڑی کانفرنس ہونے والی ہے جس میں شرکت کے لیے نجلا پیرس جانے والی تھیں۔
ایک ترجمان نجلا واہبہ نے اس سلسلے میں سرکاری ٹی وی پربیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدارتی کونسل نے نجلا پر خارجہ پالیسی میں ہم آہنگی نہ برتنے کا الزام عائد کیا ہے اور ان کے خلاف مبینہ’’ انتظامی امور کی خلاف ورزیوں‘‘ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔
اس معاملے پر سیاسی ہنگامہ آرائی کے بعد وزیر اعظم دیبہ نے اپنے ایک بیان میں کہا،’’ ایگزیکٹیو برانچ کے ارکان کی نامزدگی، برطرفی، معطلی یا ان پر کسی طرح کی فرد جرم عائد کرنے جیسے خصوصی اختیارات ۔۔۔۔۔ وزیر اعظم کے پاس ہیں۔‘‘ عبوری حکومت نے نجلا المنقوش کو وزارت خارجہ سے متعلق اپنی تمام ذمہ داریوں کو جاری رکھنے کی ہدایات دیتے ہوئے ان کے کام کی تعریف بھی کی ہے۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو پر سوالات اٹھے
نجلا المنقوش نے سن 1988 میں ہونے والے لاکربی بم دھماکے کے بارے میں بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جو باتیں کہی تھیں اسی سے یہ تنازعہ شروع ہوا۔ سن 1988 میں پین ایم جیٹ میں اس وقت دھماکہ ہوا تھا جب یہ مسافر طیارہ اسکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی سے پرواز کر رہا تھا، اس میں 270 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سن 2003 میں لیبیا نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں وزیر خارجہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ لیبیا بمباری کے مشتبہ افراد کی حوالگی کے لیے امریکا کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔ بی بی سی کے مطابق، نجلا المنقوش کا اشارہ مبینہ طور پر بم تیار کرنے والے ابو عقیلہ محمد مسعود کی طرف تھا، جو لیبیا کی ایک جیل میں قید ہیں اوراس حملے کے تعلق سے امریکا کو مطلوب بھی ہیں۔
لیبیا کے میڈیا میں اس حوالے سے جو خبریں نشر یا شائع ہوئی ہیں اس میں نجلا المنقوش کو اسی تنازعے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے، تاہم اس حوالے سے مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔
اشتہار
الیکشن کی گہماگہمی
لیبیا میں صدارتی انتخابات جلدی ہی ہونے والے ہیں اور اس تناظر میں یہ سیاسی تنازعہ وزیر اعظم عبدالحمید دیبہ اور صدارتی کونسل کے سربراہ محمد المنفی کے درمیان اختلافات میں مزید اضافے کا سبب ہو سکتا ہے۔
شمالی افریقی ملک کے مختلف سیاسی حریفوں کے درمیان، انتخابات کی قانونی بنیادوں، امیدواروں کے متعلق اخلاق و ضوابط اور یہاں تک کہ الیکشن کی تاریخ پر بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
حال ہی میں پارلیمنٹ نے اسی کشیدگی کے سبب مقننہ کے انتخابات آئندہ برس جنوری تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پھر اتوار کو ہی، لیبیا کے انتخابی کمیشن نے اعلان کیا کہ 24 دسمبر کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمان کے انتخابات کے لیے امیدوار آٹھ نومبر پیر سے اپنی نامزدگیوں کا اندراج شروع کروا سکتے ہیں۔
ص ز/ ک م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔