لیبیا کی پارلیمان میں سابق وزیر داخلہ فتحی باش آغا کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ نے عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ کی انتظامیہ کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گرچہ لیبیا کی پارلیمان میں قانون سازوں نے قومی اتحاد کی عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ کو تبدیل کرنے اور ان کی جگہ ایک نئے رہنما کے حق میں ووٹ کیا ہے تاہم وہ عبدالحمید کی انتظامیہ کو اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
لیبیا کی پارلیمنٹ نے جمعرات کو متفقہ طور پر عبدالحمید الدبیبہ کی جگہ سابق وزیر داخلہ فتحی باش آغا کو ملک کی عبوری حکومت کا نیا سربراہ مقرر کرنے کے حق میں ووٹ کیا۔
اس حوالے سے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجارک سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اقوام متحدہ اب بھی الدبیبہ کو عبوری وزیر اعظم کے طور پر تسلیم کرتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا، ''مختصر جواب تو یہی ہو گا کہ ہاں۔''
لیبیا میں سیاسی افراتفری
لیبیا میں 2011 میں سابق حکمران معمر قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کوئی مستحکم حکومت نہیں قائم ہو پائی ہے۔ ملک میں صدارتی انتخابات گزشتہ دسمبر میں ہونے والے تھے، تاہم تمام کوششوں کے باوجود سیاسی حریف انتخابی اصولوں پر متفق نہ ہو سکے جس کی وجہ سے یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی۔
عبوری وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کی قومی اتحاد حکومت کو فروری 2021 میں اقوام متحدہ کی ثالثی کے ذریعے قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد انتخابات کے انعقاد تک ایک شفاف انتظامیہ کو برقرار رکھنا تھا۔
طرابلس میں موجود الدبیبہ کی عبوری حکومت کو اب مشرقی لیبیا میں قائم پارلیمنٹ کی حمایت حاصل نہیں ہے، جو عبوری وزیر اعظم منتخب کر کے اقتدار خود سنبھالنا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ نے اس پر ووٹنگ سے قبل بحث کے دوران یہ دلیل دی کہ چونکہ الدبیبہ دسمبر میں صدارتی انتخابات کرانے میں ناکام رہے اس لیے اسی کے ساتھ ان کے مینڈیٹ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ لیکن پارلیمان کی جانب سے نئے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے فیصلے کے بعد سینکڑوں افراد طرابلس کی سڑکوں پر نکل آئے اور فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔
اشتہار
عبوری وزیر اعظم عہدہ چھوڑنے سے انکار کر سکتے ہیں
عبوری حکومت کے سربراہ عبدالحمید الدبیبہ نے متنبہ کیا کہ ان کی برطرفی ملک کی ''تقسیم اور افراتفری'' کا باعث بنے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ کسی منتخب حکومت کو اقتدار نہیں سونپ دیتے اس وقت تک وہ اپنا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے منگل کے روز اپنے ایک ٹیلیویژن خطاب میں کہا، ''ہم نئے عبوری مراحل کی اجازت نہیں دیں گے اور حکومت میں اپنے کردار سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ ہم نے عوام کے سامنے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔''
یہ سیاسی تقسیم لیبیا کے استحکام کے لیے پھر ایک بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے، جو مشرق اور مغرب میں کام کرنے والی دو متوازی حکومتوں سے پہلے ہی دو چار ہے۔ سن 2014 اور 2020 سے، جنگ بندی کے درمیان ان دونوں حکومتوں کو متحارب دھڑوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت مشرق و مغرب میں کسی کھلے تنازعے کی طرف واپسی کا امکان کم ہے کیونکہ حریف دھڑوں میں اندرونی طاقت کے حرکیات کافی حد تک بکھر چکے ہیں۔
پارلیمان نے الدبیبہ کی جگہ جس رہنما فتحی باش آغا کو منتخب کیا ہے انہیں بھی اب اپنی ایک نئی عبوری حکومت کی تشکیل کی ضرورت ہو گی تاکہ وہ اپنی تقرری سے سیاسی اثرو رسوخ قائم کر سکیں۔ یہ ممکنہ طور پر ایک طویل عمل ہو سکتا کیونکہ حریف دھڑے عہدے کے لیے پہلے سے ہی لڑ رہے ہیں۔
ادھر الدبیبہ کا کہنا ہے کہ جون میں انتخابات کے انعقاد کے لیے ''روڈ میپ'' پر اتفاق رائے کے لیے مشاورت شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم، ان انتخابات کی ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔