لیبیا: پارلیمان کو معطل کر دیا ہے، مسلح گروپ
19 مئی 2014![](https://static.dw.com/image/17644481_800.webp)
جنرل مختار فرنانا نے لیبیا کے دو مختلف پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز پر نشر کیے جانے والے خطاب میں کہا کہ جنرل خلیفہ ہفتر کی قیادت میں اس گروپ نے 60 ارکان پر مبنی ایک آئینی اسمبلی کو موجودہ پارلیمان کا کنٹرول سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ فرنانا کے بقول لیبیا کی موجودہ حکومت ایمرجنسی بنیاد پر کام کرے گی۔ تاہم اس بارے میں مزید کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
جنرل مختار فرنانا کے بقول اتوار کے روز ملکی پارلیمان پر حملہ بغاوت نہیں تھا بلکہ یہ ’لوگوں کی خواہش پر لڑائی‘ تھی۔ فرنانا کے بقول اتوار کے روز ملکی پارلیمان پر کیے جانے والے اس حملے میں قریب 20 قانون سازوں کو اغواء بھی کیا گیا۔
لیبیا کے وزیر انصاف صالح المرغنی نے بعد ازاں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طرابلس میں متحارب ملیشیا گروپوں کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ 55 دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔ المرغنی کے بقول طرابلس میں ہونے والی جھڑپوں کا بن غازی میں جمعہ کے روز جنرل ہفتر کے وفادار مسلح دستوں اور مسلمان ملیشیاؤں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران تنازعے میں شریک گروپوں پر زور دیا کہ وہ ہتھیار رکھ دیں اور مذاکرات سے مسئلے کا حل تلاش کریں۔
جمعہ 16 فروری کو بن غازی میں سابق جنرل خلیفہ ہفتر کے حامی مسلح دستوں نے مسلم ملیشاؤں کے خلاف ایک آپریشن کیا جس دوران ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 79 افرا دہلاک ہوئے تھے۔ ہفتے کے روز ملکی پارلیمان، حکومت اور فوج کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں بن غازی میں سابق جنرل کی حامی فورسز کی طرف سے کیے گئے آپریشن کو بغاوت کی کوشش قرار دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ایسی کسی کوشش کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ طرابلس حکومت کی جانب سے بن غازی کو نو فلائی زون قرار دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ اس علاقے میں پرواز کرنے والے کسی بھی ہیلی کاپٹر یا طیارے کو مار گرایا جائے گا۔
تاہم 2011ء میں لیبیا کے سابق رہنما کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف زمینی فوجوں کی سربراہی کرنے والے جنرل ہفتر کا کہنا تھا، ’’ہمارا آپریشن حکومت کے خلاف بغاوت نہیں ہے اور ہم طاقت میں آنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔‘‘ جنرل ہفتر 1980ء کی دہائی میں قذافی حکومت سے روگرادنی کرتے ہوئے امریکا چلے گئے تھے جہاں انہوں نے کرنل قذافی کی حکومت کے خلاف تحریک میں شمولیت سے قبل قریب 20 برس گزارے۔