لیبیا: پرتشدد واقعات کے سبب حریف وزیر اعظم طرابلس سے فرار
18 مئی 2022
لیبیا میں اس وقت دو حریف متوازی حکومتیں ہیں اور دونوں ہی کو مسلح گروہوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دارالحکومت طرابلس میں اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب ان میں سے ایک نے وہاں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔
اشتہار
لیبیا میں 17 مئی منگل کے روز حریف وزیر اعظم فتحی علی عبدالسلام باش آغا کو اس وقت دارالحکومت طرابلس چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا، جب متحارب ملیشیا کے درمیان اچانک جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ باش آغا کئی وزرا کے ساتھ اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے طرابلس پہنچے تھے۔
تین ماہ قبل ہی ملک کی مشرقی پارلیمان نے فتحی علی عبد السلام باش آغا کو اپنا نیا وزیر اعظم منتخب کیا تھا۔ یہ پارلیمان طبرق شہر میں واقع ہے۔ پارلیمانی فیصلے کے باوجود موجودہ وزیر اعظم عبدالحمید الدبیبہ نے یہ کہہ کر اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایسا صرف ایک منتخب حکومت کے لیے کریں گے۔
عبدالحمید الدبیبہ کو دارالحکومت طرابلس میں طاقتور مسلح ملیشیا کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ان کی وزارت دفاع نے کہا تھا، ''سیکورٹی اور شہریوں کی حفاظت پر حملہ کرنے والوں '' کو ''آہنی مکے سے'' جواب دیا جائے گا۔ اس موقع پر الدبیبہ کو طرابلس کی گلیوں میں عوام سے ملتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
'خونریزی روکنے' کی امید میں شہر چھوڑ دیا
دو متوازی حکومتوں کے حامیوں کے درمیان تشدد پھوٹنے سے پہلے باش آغا نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ''ہم پرامن اور محفوظ طریقے سے دارالحکومت طرابلس پہنچے۔ استقبالیہ بھی شاندار تھا۔'' بعد میں انہوں نے کہا کہ وہ محض ''شہریوں کی سلامتی اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے اور خونریزی کو روکنے کے لیے شہر سے نکل آئے۔''
لیبیا سے متعلق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر اسٹیفنی ولیمز نے اس واقعے سے متعلق ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں لوگوں سے
پرامن رہنے کی اپیل کی اور تمام مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر کو استعمال کرنے کی پیشکش کی۔
انہوں نے ٹویٹر پر لکھا، ''میں تحمل کی تاکید کرتی ہوں اور اشتعال انگیز بیان بازی، جھڑپوں میں شرکت اور فورسز کو متحرک کرنے سمیت اشتعال انگیز کارروائیوں سے پرہیز کرنے کی مکمل ضرورت پر زور دیتی ہوں۔''
تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ سن 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت میں ملک کے آمر معمر قذافی کو ہلاک کر دیا گیا تھا، تب سے یہ تنازعات کا شکار ہے۔
اس وقت ملک کے مشرق اور مغرب میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں، جن میں سے ہر ایک کو مسلح ملیشیا اور غیر ملکی حکومتوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔
لیبیا میں جون میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، جو اصل میں سن 2018 میں ہونا تھے، لیکن پھر انہیں پہلے دسمبر 2021 تک کے لیے ملتوی کیا گیا اور اب رواں برس جون تک موخر کر دیا گیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔