لیبیا کا بحران: سخت ایکشن کی امریکی تجویز
17 مارچ 2011لیبیا میں باغیوں نے قذافی کی حامی فوجوں کی پیشقدمی کو روکنے کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومتی فوج کو اجدابیہ اور مصراتہ میں باغیوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ اجدابیہ میں کم از کم تیس افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ افراد بھی شامل ہیں۔ اجدابیہ کے شہریوں کے مطابق قذافی کی افواج شہر کے مشرق میں موجود ضرور ہیں، لیکن اجدابیہ کے وسطی حصے پر بدستور باغی قابض ہیں۔ بن غازی سے باغیوں کے ترجمان مصطفیٰ غیریانی نے بھی اجدابیہ شہر کے باغیوں کے قبضے میں ہونے کا ذکر کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ قذافی کی فوج کو رسد کی مشکلات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب طرابلس حکام نے بن غازی میں عام شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ باغیوں سے دور ہٹ جائیں کیونکہ فیصلہ کن جنگ کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ اس مناسبت سے لیبیا کے سرکاری ٹیلی وژن پر پیغامات نشر کیے جا رہے ہیں کہ بن غازی شہر کو مسلح گینگ سے پاک کرنے کے لیے وہاں فوج پہنچنے والی ہے۔ بن غازی کے ہوائی اڈے پر فائرنگ کی اطلاع سرکاری ٹیلی وژن نے دی ہے۔ لیبیا کے کئی شہروں میں مجموعی صورت حال خاصی کشیدہ ہے۔
عالمی سطح پر لیڈران لیبیا میں پیدا شدہ صورت حال پر افسوس ضرور کر رہے ہیں لیکن تاحال کسی بڑی کارروائی کا فیصلہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ فرانسیسی صدر سارکوزی کی قذافی کے خلاف کسی بڑی کارروائی کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہیں۔ لیبیا کی فضائی حدود میں نو فلائی زون کے قیام کی عرب لیگ نے ضرور حمایت کی لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اب اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس کا کہنا ہے کہ لیبیا کی سویلین آبادی کو بچانے کے لیے ان کا ملک دوسری ریاستوں کے ساتھ صلاح مشورے جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ ایکشن نو فلائی زون سے آگے جانے کی بات ہے۔
یورپی یونین اور عرب لیگ کی جانب سے لیبیا کے خلاف کسی کارروائی کے حوالے سے امریکی ایکشن غالباﹰ فوری طور پر اس لیے ممکن نہیں ہو سکا تھا کہ بعض ماہرین ایسے کسی بھی ایکشن کو سیاسی طور پر سود مند قرار نہیں دے رہے تھے۔ ماہرین کے خیال میں اب امریکی موقف میں تبدیلی کی وجہ قذافی کی حامی فوج کے ہاتھوں باغیوں کی حالت زار ہو سکتی ہے۔ فوجی ایکشن کی تجویز کو برطانیہ اور فرانس کے علاوہ ڈنمارک کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کے مطابق ان کا ملک لیبیا کے خلاف ممکنہ ایکشن کے حوالے سے ایک قرارداد کی منظوری کی کوشش میں ہے۔ اس قراداد کے متن کی تیاری میں لبنان اور برطانیہ بھی شریک ہیں۔
ادھر نیو یارک میں لیبیا کے قذافی مخالف سفارت کار ابراہیم دباشی کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے پاس کل دس گھنٹے باقی بچے ہیں اور اگر اس دوران کچھ نہ ہوا تو اجدابیہ میں قتل عام کا بازار گرم ہو جائے گا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک