1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’لیبیا کا بحران سنگین تر‘، بان کی مون

19 مئی 2011

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ لیبیا میں فائر بندی کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں اور وہاں انسانی صورتحال سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسی دوران معمر قذافی کی حکومت نے چار غیر ملکی صحافی رہا کر دیے ہیں۔

سیکرٹری جنرل بان کی مون
سیکرٹری جنرل بان کی مونتصویر: Picture Alliance/Photoshot

نیویارک میں فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں بان نے کہا کہ لیبیا کے لیے اُن کے خصوصی ایلچی عبداللہ الخطیب نے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں لیکن قذافی کی جانب سے فوری اور قابلِ تصدیق فائر بندی کے اعلان کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ بان نے خبردار کیا کہ ’خراب تر ہوتی ہوئی انسانی صورت حال کے پیشِ نظر لیبیا کا بحران سنگین تر ہوتا جا رہا ہے‘۔

حکومت کے مخالفین اور قذافی کے حامی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اُنہیں مصراتہ کے حالات پر بہت زیادہ تشویش ہے، جو دو ماہ سے زیادہ عرصے سے قذافی کے حامی دستوں کے گھیرے میں ہے اور جہاں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خطیب گزشتہ اتوار کو طرابلس گئے تھے، جہاں اُنہوں نے فائر بندی کی ضرورت اور لیبیا کے ابتر حال شہروں تک رسائی کے موضوع پر قذافی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کی تاہم وہ خود معمر قذافی سے نہیں مل پائے۔

دریں اثناء طرابلس میں چار غیر ملکی صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے دو امریکی ہیں، ایک کا تعلق برطانیہ سے اور ایک کا اسپین سے ہے۔ یہ صحافی اپنی رہائی کے بعد بدھ کو دیر گئے طرابلس کے Rixos ہوٹل پہنچ گئے تھے۔

ایک آن لائن نیوز ایجنسی ’گلوبل پوسٹ‘ سے وابستہ امریکی صحافی جیمز فولی اور فری لانس امریکی صحافی مورگانا گیلس چار اپریل کو اسپین کے ایک فوٹوگرافر مانو برابو کے ہمراہ لیبیا کے بحران پر رپورٹنگ کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔ بدھ 18 مئی کو اِن تینوں کے ساتھ ساتھ برطانوی صحافی نائجل چینڈلر کو بھی رہا کر دیا گیا۔

ICC کے مستغیثِ اعلیٰ لوئیس مورینو اوکامپو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں قذافی کے ساتھ ساتھ اُن کے بیٹے سیف الاسلام اور ہم زُلف عبداللہ السینوسی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے پر زور دے چکے ہیںتصویر: AP

قذافی کی چار عشروں سے زیادہ عرصے کی حکمرانی کے خلاف لیبیا میں عوامی احتجاج کا سلسلہ 15 فروری کو شروع ہوا تھا اور قذافی ابھی بھی اقتدار چھوڑنے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔ اس دوران حکومت کے مخالفین اور قذافی کے حامی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ تقریباً ساڑھے سات لاکھ انسان گھر بار چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔

اِدھر بین الاقوامی فوجداری عدالت ICC کے مستغیثِ اعلیٰ لوئیس مورینو اوکامپو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں قذافی کے ساتھ ساتھ اُن کے بیٹے سیف الاسلام اور ہم زُلف عبداللہ السینوسی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے پر زور دے چکے ہیں۔ بدھ 18 مئی کو اوکامپو نے اس سے بھی آگے جاتے ہوئے کہا کہ لیبیا حکومت کی پوری قیادت کو تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طرابلس حکومت کے ترجمان موسیٰ ابراہیم نے بین الاقوامی عدالت ICC کی طرف سے دیے گئے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ طرابلس حکومت اِس عدالت کے دائرہء اختیار میں نہیں آتی۔ ترجمان نے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ حکومت نے شہریوں کے قتل کے احکامات جاری کیے تھے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں