لیبیا کا مسئلہ سیاسی وسفارتی ذریعے سے حل کر لیں گے، سارکوزی
25 مارچ 2011فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے کہا ہے کہ فرانس اور برطانیہ لیبیا کے بحران کا سیاسی اور سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ منگل 29 مارچ کو لندن میں طے شدہ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’یقینی طور پر فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ پیشرفت سے واضح ہو جائے گا کہ لیبیا کے مسئلے کا محض فوجی حل ہی نہیں ہے بلکہ سیاسی اور سفارتی حل بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
لندن میں منگل کو ہونے والی ملاقات کو لیبیا کے معاملے پر رابطہ گروپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ملاقات میں لیبیا میں جاری اتحادی فوجی آپریشن کے حوالے سے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے علاوہ افریقی یونین، عرب لیگ اور دیگر یورپی اقوام کو قریب لانا ہے۔
دوسری طرف برسلز میں ہونے والی یورپی سمٹ کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا : ’’یہ لیبیا کے عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے ملک کا مستقبل طے کریں۔‘‘
قبل ازیں نیٹو کے رکن ممالک لیبیا میں نو فلائی زون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے متفق ہو گئے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ سے آگے نہیں جا سکتا، جبکہ نیٹو فورسز اپنا دفاع کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت لیبیا میں اتحادی فورسز بھی آپریشن کریں گی اور نیٹو بھی۔ راسموسن نے کہا: ’’نیٹواتحادیوں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ لیبیا پر نوفلائی زون کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
خیال رہے کہ ترکی بھی اس منصوبے کی حمایت کر چکا ہے۔ اس سے قبل ترکی نے اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا میں نو فلائی زون کی قرارداد منظور کیے جانے کے بعد آپریشنل کمان اتحادی افواج کے حوالے کرنے پر تشویش ظاہر کی تھی۔
دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہےکہ متحدہ عرب امارت نے بھی لیبیا کے خلاف جاری آپریشن میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’متحدہ عرب امارات نے اعلان کیا ہے کہ وہ اتحادی افواج میں شامل ہورہا ہے اور لیبیا کے عوام کے تحفظ اور نوفلائی زون کے نفاذ کے لیے اپنے جہاز بھیج رہا ہے۔ ہم اس اہم پیشرفت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘
ادھر کرنل قذافی کی حامی فورسز کے حملے روکنے کے لیے اتحادی فورسز نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 16 ٹوما ہاک میزائل داغے ہیں، جبکہ اسی دوران 153 پروازیں بھی کی گئیں۔ امریکی وائس ایڈمرل Bill Gortney کا کہنا ہے کہ معمر قذافی کی سکیورٹی فورسز کے خلاف 38 بحری جہازوں کے علاوہ 350 سے زائد جنگی ہوائی جہاز بھی سرگرم عمل ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک