شمالی افریقی ملک لیبیا کا مسلح تنازعہ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس دوران روس نے ابھی تک اس بحران کے حوالے سے کوئی فوری فیصلہ کرنے کے بجائے جو موقف اپنایا ہے، اُسے خاصا مناسب خیال کیا گیا ہے۔
اشتہار
روسی حکومت کے ترجمان نے چند روز قبل واضح کیا تھا کہ ماسکو ہر ممکن کوشش کرے گا کہ لیبیا کے متحارب فریقین کو شدید خون خرابے سے روکا جا سکے کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس سے عام شہریوں کی ہلاکت ہو گی۔ اسی دوران روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے مصری دورے کے موقع پر کہا کہ روس لیبیا کی عوام کی مدد کرے گا کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے مصالحتی عمل سے مستحکم سمجھوتے کو تشکیل دیں۔
رواں مہینے کے اوائل سے لیبیا کی داخلی صورت حال خراب سے خراب تر ہونے لگی تھی اور اسی دوران مشرقی شہر بن غازی کے جنگی سردار خلیفہ حفتر نے ملکی دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کا اعلان کر دیا۔ اُن کی لیبین نیشنل آرمی اس وقت طرابلس کے نواح تک پہنچ چکی ہے۔ طرابلس ہی میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے اور اس کے وزیراعظم فائز سراج ہیں۔
ایک روسی سفارت کار وائچیسلاو ماتوزوف کا خیال ہے کہ لیبیا کے حالات روس کے لیے ایک انتہائی نازک صورت حال ہے اور مشکل یہ ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ ماتوزوف کا استدلال ہے کہ روس کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ لیبیا کا اندرونی مسلح خلفشار جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے ایک نیا میدان بن سکتا ہے اور یہ مسلح تنازعے کو انتہائی شدید کر دے گی۔
روس خاص طور پر لیبیا کے موجودہ صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ بعض بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ملک ماسکو حکومت کا اگلا شام ہو سکتا ہے۔ روس کے مختلف اتحادی لیبیا کے حوالے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ روسی اتحادی ممالک ترکی اور الجزائر واضح طور پر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیراعظم فائر السراج کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری جانب مصر اور سعودی عرب جنگی سردار خلیفہ حفتر کے حامی ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ ماسکو حکومت کے لیے کوئی فیصلہ کرنا قدرے مشکل ہو رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مصر اور الجزائر روسی ہتھیاروں کے اہم خریدار ہیں۔ ترکی بھی روس کا ایک اہم اتحادی ملک بن چکا ہے اور شام کے تنازعے پر یہ اکھٹے ہیں۔
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔