1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کی ’بے قابو ملیشیا‘ پر اقوام متحدہ کی تشویش

26 جنوری 2012

اقوام متحدہ کے سفیروں نے لیبیا کے ’انقلابی بریگیڈز‘ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ اس عالمی ادارے کو بتایا گیا ہے کہ لیبیا کی ’بے قابو‘ ملیشیا ہزاروں افراد کو خفیہ حراستی مراکز میں رکھے ہوئے ہے۔

تصویر: dapd

لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر آیان مارٹن نے بدھ کو لیبیا کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ بنی ولید کے مسلح رہائشیوں اور انقلابیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی درست معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں اور ان کا ذمہ دار قذافی نواز فورسز کو ٹھہرایا گیا تھا۔

اس اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلائی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس معمر قذافی کے زوال سے قبل نیٹو کے فضائی حملوں سے شہریوں کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، اس مغربی اتحاد کو اس بارے میں بتانا چاہیے۔

مارٹن نے کہا کہ انقلابی بریگیڈز رواں ماہ طرابلس اور دیگر علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اگرچہ حکام ان اور ایسی دیگر جھڑپوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے، لیکن اس بات کا خدشہ بدستور موجود ہے کہ تشدد کی ایسی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں پلائی نے بریگیڈز کو حاصل بھاری اسلحے پر بھی خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بریگیڈز کی جانب سے ہزاروں افراد کو حراست میں رکھے جانے پر بھی انتہائی تشویش ہے، جن میں سے بیشتر دیگر افریقی ملکوں کے شہری ہیں اور ان پر قذافی نواز ہونے کا الزام ہے۔

اقوام متحدہ میں تعینات لیبیا کے سفیر محمد شلقم نے اس اجلاس میں تسلیم کیا کہ ان کی حکومت حراستی مراکز کے مقام سے آگاہ نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلائیتصویر: picture alliance / dpa

پیلے نے بتایا کہ ان کے محکمے کو ان حراستی مراکز میں کیے جانے والے تشدد اور بدسلوکیوں کے بارے میں ’تشویشناک رپورٹیں‘ موصول ہوئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو ان کیمپوں کے دورے کا موقع ملا ہے۔

روس اور چین نیٹو پر لیبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ لیبیا پر نیٹو کے فضائی حملوں کی تحقیق کرائے۔

خیال رہے کہ طرابلس حکومت قذافی کے خلاف لڑنے والی ملیشیا کے ہزاروں ارکان کو پولیس اور فوج میں بھرتی کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں