لیبیا کی ’بے قابو ملیشیا‘ پر اقوام متحدہ کی تشویش
26 جنوری 2012![](https://static.dw.com/image/15445890_800.webp)
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر آیان مارٹن نے بدھ کو لیبیا کے موضوع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بتایا کہ بنی ولید کے مسلح رہائشیوں اور انقلابیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کی درست معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں اور ان کا ذمہ دار قذافی نواز فورسز کو ٹھہرایا گیا تھا۔
اس اجلاس کے دوران اقوام متحدہ کی کمشنر برائے انسانی حقوق ناوی پلائی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس معمر قذافی کے زوال سے قبل نیٹو کے فضائی حملوں سے شہریوں کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، اس مغربی اتحاد کو اس بارے میں بتانا چاہیے۔
مارٹن نے کہا کہ انقلابی بریگیڈز رواں ماہ طرابلس اور دیگر علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں کے لیے بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا: ’’اگرچہ حکام ان اور ایسی دیگر جھڑپوں پر قابو پانے میں کامیاب رہے، لیکن اس بات کا خدشہ بدستور موجود ہے کہ تشدد کی ایسی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں پلائی نے بریگیڈز کو حاصل بھاری اسلحے پر بھی خدشہ ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بریگیڈز کی جانب سے ہزاروں افراد کو حراست میں رکھے جانے پر بھی انتہائی تشویش ہے، جن میں سے بیشتر دیگر افریقی ملکوں کے شہری ہیں اور ان پر قذافی نواز ہونے کا الزام ہے۔
اقوام متحدہ میں تعینات لیبیا کے سفیر محمد شلقم نے اس اجلاس میں تسلیم کیا کہ ان کی حکومت حراستی مراکز کے مقام سے آگاہ نہیں ہے۔
پیلے نے بتایا کہ ان کے محکمے کو ان حراستی مراکز میں کیے جانے والے تشدد اور بدسلوکیوں کے بارے میں ’تشویشناک رپورٹیں‘ موصول ہوئیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کو ان کیمپوں کے دورے کا موقع ملا ہے۔
روس اور چین نیٹو پر لیبیا کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ لیبیا پر نیٹو کے فضائی حملوں کی تحقیق کرائے۔
خیال رہے کہ طرابلس حکومت قذافی کے خلاف لڑنے والی ملیشیا کے ہزاروں ارکان کو پولیس اور فوج میں بھرتی کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: عدنان اسحاق