جنگجو ٹھکانے سے فرانسیسی فوج کے میزائلوں کی برآمدگی سے اس الزام کو تقویت مل سکتی ہے کہ فرانس لیبیا کی خانہ جنگی کوفروغ دینے میں ملوث ہے۔
اشتہار
فرانس نے تصدیق کی ہے کہ لیبیا کے جنگجو رہنما جنرل خلیفہ ہفتر کے ایک ٹھکانے سے برآمد ہونے والے میزائل فرانسیسی افواج کے ہیں، لیکن یہ میزائل فوج سے گم ہوگئے تھے۔
فرانس پرالزام ہے کہ وہ جنگجو رہنما خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ فرانس ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔
جنرل ہفتر کی ملیشیا دارالحکومت طرابلس میں برسرپیکار ہے۔ اس کے حملوں میں ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں۔
خلیفہ حفتر کے معاملے پر فرانس اور یورپی یونین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
لیبین ملیشیا کے پاس فرانسیسی فوج کے میزائل کی موجودگی کا انکشاف امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی ایک تازہ رپورٹ میں سامنے آیا۔ رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے دستوں نے جون کے مہینے میں جنرل ہفتر کے کیمپ سے امریکی ساخت کے چار 'جیویلین میزائل' برآمد کیے۔
فرانسیسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ میزائل پیرس حکومت نے ہی یقینی طور پر خریدے تھے۔ حکام کے مطابق انہوں نے کوئی بین القوامی قانون نہیں توڑا اور نہ یہ میزائل لبیا کی کسی ملیشیا کو منتقل کیے گئے تھے۔
پیرس سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ میزائل ناقابلِ استعمال ہو جانے کی وجہ سے ایک گودام میں ذخیرہ کیے گئے تھے اوران کو تلف کیا جانا تھا لیکن یہ گم ہو گئے۔ اس بیان میں فرانسیسی حکومت نے یہ کی وضاحت نہیں کہ ذخیرہ کیے گئے ناکارہ میزائل کیسے اورکب لاپتہ ہوگئے تھے۔
شامل شمس (عابد حسین)
لیبیا: پانی کا بحران شدت اختیار کرتا ہوا
تیل کی دولت سے مالا مال ملک لیبیا کبھی شمالی افریقہ کا امیر ترین ملک تھا۔ لیکن اس ملک میں شروع ہونے والی خانہ جنگی نے اسے تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے بڑے حصوں میں پینے کے پانی کی قلت ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
بنیادی سہولیات کی کمی
لیبیا میں پانی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ خانہ جنگی کی وجہ سے اس حصے میں پانی فراہم کرنے والے 149 پائپوں میں سے 101 تباہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
ماڈرن واٹر پائپ لائن سسٹم میں خرابی
لیبیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ سابق آمر معمر قذافی نے اسی کی دہائی میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں پائپ لائن سسٹم بچھایا تھا، جسے ’گریٹ مین میڈ ریور‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ لیبیا کی ستر فیصد آبادی کو صاف پانی اسی نظام کے تحت فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ نظام زوال کا شکار ہے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
خانہ جنگی اور افراتفری
سن دو ہزار گیارہ میں قذافی کو زوال کے بعد قتل کر دیا گیا تھا لیکن تب سے یہ ملک بدامنی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ طرابلس حکومت کمزور ہے اور ملک کے سبھی حصوں کو کنٹرول نہیں کرتی۔ دوسری جانب جنرل خلیفہ حفتر کی فوج ملک کے تمام بڑے مشرقی حصوں پر قابض ہے۔
تصویر: AFP/M. Turkia
نشانہ طرابلس ہے
خلیفہ حفتر کی فوج (ایل این اے) مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے لیے واٹر پائپ لائن کو استعمال کرتی ہے۔ مئی میں خلیفہ حفتر کے حامی جنگجوؤں نے واٹر سپلائی اسٹیشن پر قبضہ کرتے ہوئے ملازمین کو پانی بند کرنے پر مجبور کیا۔ ایک قیدی کی رہائی کے لیے دو دن طرابلس کا پانی بند رکھا گیا۔
تصویر: Reuters/H. Ahmed
پانی بطور جنگی ہتھیار
یہ صرف مسلح گروپ ہی نہیں ہیں جو پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں، جو پائپوں پر لگے تانبے کے ویل ہیڈز چرا لیتے ہیں تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ نے لیبیا کے فریقین کو خبردار کر رکھاہے کہ پانی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال نہ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
صحت کے مسائل
یونیسیف کے ترجمان مصطفیٰ عمر کے مطابق اگر ان مسائل کا کوئی حل نہ ڈھونڈا گیا تو مستقبل میں لیبیا کے چالیس لاکھ باشندوں کی پینے کے صاف پانی تک رسائی ختم ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہیپاٹائٹس اے اور ہیضے جیسی وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/E.O. Al-Fetori
پانی بھی قابل استعمال نہیں
لیبیا کے بہت سے حصوں میں آنے والا پانی بھی آلودہ ہے۔ بیکڑیا یا نمک کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ استعمال کے قابل نہیں۔ اکثر اس پانی کو پینے سے لوگ مزید بیمار ہو جاتے ہیں۔