'لیبیا کی پوشیدہ جیلوں میں مغوی مہاجرین کو تشدد کا سامنا‘
انفومائگرینٹس
24 مئی 2018
بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے رپورٹ کیا ہے کہ لیبیا میں سات لاکھ مہاجرین موجود ہیں جن کی اکثریت کو غیر قانونی طور پر بنائی گئی جیلوں میں تشدد کا سامنا ہے۔
اشتہار
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز یا ایم ایس ایف کے لیبیا میں سربراہ کرسٹوف بیتو نے اپنے ایک تجزیے میں خمس اور مصراتہ کے حراستی مراکز اور بنی ولید کے علاقے کی خفیہ جیل میں رہنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے دگر گوں حالات پر روشنی ڈالی ہے۔
مہاجرین کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے والے یورپی ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق بیتو جو سن 2017 سے لیبیا میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈر کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ملک میں خفیہ اور غیر قانونی طور پر بنائی گئی جیلوں میں موجود سات لاکھ مہاجرین پر مظالم دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
بیتو نے اپنے تجزیے میں تحریر کیا ہے کہ سرکاری حراستی مراکز سے باہر دیگر جیلوں میں رہنے والے تارکین وطن پر تشدد کے خاتمے اور اُن کی آزادی کے لیے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔
بیتو کے مطابق ایم ایس ایف کو ابھی تک ان خفیہ جیلوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی تاہم اس تنظیم نے وہاں سے فرار ہونے والے بعض مہاجرین کی معاونت ضرور کی ہے۔ ان افراد پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ کچھ کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی تھیں جبکہ دیگر کی پیٹھ پر ڈنڈے سے مارے جانے اور جلائے جانے کے نشانات ملے۔
بیتو کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ کتنے مہاجرین لیبیا میں داخل ہونے کے بعد بنی ولید کے علاقے سے گزرے اور اس خوفناک صورت حال سے دو چار ہوئے۔
تجزیاتی رپورٹ میں کرسٹوف بیتو نے یہ بھی لکھا ہے کہ لیبیا میں تشدد سے ہلاک ہونے والے مہاجرین کو با عزت طریقے سے دفنانے کا کام کرنے والی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس سے اب تک وہ ایسی سات سو تیس لاشیں دفنا چکے ہیں۔
ایم ایس ایف کے مطابق سن 2017 سے لے کر اب تک جو نمایاں تبدیلی اس تنظیم نے نوٹ کی ہے وہ سرکاری حراستی مراکز میں لائے جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد کا کم ہونا ہے۔ اس وقت یہ تعداد چار سے پانچ ہزار ہے۔ تعداد میں کمی کے باعث جیلوں میں رہنے کے حالات گزشتہ چھ ماہ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گئے ہیں۔
لیبیا میں ایم ایس ایف کے سربراہ کا مزید کہنا ہے کہ تنظیم کے پاس یہ پتہ لگانے کا کوئی طریقہ نہیں کہ غیر قانونی طور پر قائم پوشیدہ جیلوں میں کتنے مہاجرین قید ہیں۔
کرسٹوف بیتو کے تجزیے کے مطابق ان خفیہ قید خانوں میں مغوی مہاجرین اور تارکین وطن سے تاوان کی رقم طلب کرنے کے لیے نہ صرف بڑے پیمانے پر جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے بلکہ غالباﹰ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
سمندر میں ڈوبتے ابھرتے تارکینِ وطن
گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں چالیس ہزار تارکینِ وطن کو ساحلی پولیس نے نہیں بلکہ اُن تجارتی بحری جہازوں نے بچایا، جو یورپی یونین کا امدادی مشن مارے نوسٹرم ختم ہونے کے بعد سے باقاعدہ تلاش کر کے تارکینِ وطن کی جانیں بچاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
شکر ہے، بچ گئے
ربڑ کی یہ کشتی اور اِس میں سوار تارکینِ وطن عنقریب ’او او سی جیگوار‘ نامی اس پرائیویٹ بحری تجارتی جہاز کی حفاظت میں ہوں گے، جو عام طور پر بحیرہٴ روم میں واقع تیل کے کنووں تک اَشیائے ضرورت پہنچاتا ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
طوفانی لہروں میں سہارا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ’جیگوار‘ جیسے بحری جہازوں کو سمندر کے بیچوں بیچ پھنسے ہوئے تارکینِ وطن کو بچانا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کے امدادی مشن ’ٹریٹون‘ کے تحت محض چند ایک امدادی بحری جہاز ہی اس کام میں مصروف ہیں اور وہ بھی اٹلی کے ساحلوں سے زیادہ سے زیادہ چھپن کلومیٹر تک گشت کرتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
ایک اور بے سہارا کشتی
جرمن جہاز راں کرسٹوفر اوپیلوک کے دو بحری جہاز، جو عام طور پر سمندر میں بنے آئل پلیٹ فارمز کو اَشیائے ضرورت فراہم کرتے ہیں، گزشتہ سال دسمبر سے لے کر اب تک پندرہ سو تارکینِ وطن کی جانیں بچا چکے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی تھے، جنہیں وہ نہ بچا سکے۔ ’جیگوار‘ نامی جہاز کا اس الٹی ہوئی کشتی سے سامنا اپریل کے وسط میں ہوا تھا۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
اب سامان میں کمبل بھی
اوپیلوک کے بحری جہاز عام طور پر مالٹا میں لنگر اندز ہوتے ہیں اور وہاں سے لیبیا کے ساحلوں کے قریب واقع آئل پلیٹ فارمز کو ہر قسم کا مطلوبہ سامان پہنچاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جہاز اپنے ساتھ اضافی طور پر اَشیائے خوراک، کمبل اور ادویات بھی رکھنے لگے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
سلامتی کی منزل ابھی دور
’جیگوار‘ کے عرشے پر پہنچ جانے کا مطلب بھی مکمل سلامتی کی منزل تک پہنچ جانا نہیں ہوتا۔ جہاز راں اوپیلوک کے مطابق ’بہت سے تارکینِ وطن، جنہیں ہم پانی سے نکالتے ہیں، اُن کے جسم سرد پانی کی وجہ سے اتنے زیادہ متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ عرشے پر پہنچنے کے چند منٹ کے اندر اندر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
غرقابی سے کچھ پہلے
تجارتی بحری جہازوں کے کپتان اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ سمندر میں پھنسے ہوئے افراد کی مدد کریں اور اُن کی جان بچائیں۔ ایسے میں تارکینِ وطن کو لانے والے بحری جہاز جان بوجھ کر اُن روٹس پر سفر کرتے ہیں، جنہیں تجارتی بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ تارکینِ وطن سے بھری ہوئی یہ کشتی بس غرق ہونے ہی والی ہے۔
تصویر: OOC Opielok Offshore Carriers
امدادی مشن میں ایک ایک لمحہ قیمتی
... اور کشتی غرق ہونے کے چند ہی لمحے بعد تارکینِ وطن کھلے سمندر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایک بار پھر ’جیگوار‘ بحری جہاز ڈوبتے ہوئے ان انسانوں کی جانیں بچانے اور اٹلی کی ساحلی پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی کبھی ایک امدادی مشن مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹے لگ جاتے ہیں۔