لیبیا کی فضائی حدود میں امریکی فوج کا ڈرون ’گم ہو گیا‘
23 نومبر 2019
امریکی فوج کا لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کی فضا میں پرواز کرنے والا ایک ڈرون طیارہ ’گم ہو گیا‘ ہے۔ یہ بات جرمن شہر شٹٹ گارٹ میں امریکی فوج کی افریقہ کے لیے کمان ’ایفری کوم‘ کے ہیڈکوارٹرز کی طرف سے بتائی گئی۔
اشتہار
شمالی افریقی ملک لیبیا میں، جو برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر طرابلس پر قبضے کے لیے متحارب مسلح دھڑوں کے مابین لڑائی جاری ہے۔ امریکی فوج کی افریقہ کے لیے کمان AFRICOM، جو جرمنی سے براعظم افریقہ میں واشنگٹن کی فوجی سرگرمیوں کی نگرانی کرتی ہے، نے ہفتہ تیئیس نومبر کو بتایا کہ یہ ڈرون جمعرات اکیس نومبر کو طرابلس کی فضا میں پرواز کرتا ہوا اچانک غائب ہو گیا تھا اور ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ یہ فوجی ڈرون اچانک کس طرح لاپتہ ہو گیا۔
بغیر پائلٹ کے پرواز کرنے والا یہ امریکی فوجی ڈرون غیر مسلح تھا اور وہ حسب معمول لیبیا کی فضا سے زمین پر کی جانے والے ممکنہ عسکریت پسندانہ کارروائیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ 'ایفری کوم‘ کے ایک بیان کے مطابق اس واقعے کی چھان بین جاری ہے۔
امریکی عسکری حکام کے مطابق یہ ڈرون طرابلس کی فضا میں متعلقہ حکومتی اہلکاروں کی باقاعدہ اجازت اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کے نتیجے میں محو پرواز تھا۔
براعظم افریقہ کے مختلف ممالک میں اس وقت امریکی فوج، بحریہ اور فضائیہ کے کل تقریباﹰ سات ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ افریقہ ایک براعظم کے طور پر اپنے رقبے میں امریکا کے ریاستی رقبے سے تین گنا بڑا ہے اور وہاں جملہ امریکی فوجی سرگرمیوں کو جرمن شہر شٹٹ گارٹ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
م م / ع ح (اے پی، اے ایف پی)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔