لیبیا کے باغی اربوں ڈالر کے طلب گار
3 مئی 2011منگل کے روز لیبیا میں باغیوں کی قومی کونسل کی فنانس کمیٹی کے سربراہ علی ترحُونی نے اپنی حامی بین الاقوامی طاقتوں سے درخواست کی ہےکہ بن غازی اور دوسرے شہروں میں حکومتی اور جنگی اخراجات کے لیے انہیں لیبیا کے مجنمد اثاثوں میں سے دو سے تین بلین ڈالر کی رقم ادا کی جائے۔ یہ رقوم امریکہ اور یورپی ممالک کے بینکوں میں جمع ہیں۔
ترحونی کے مطابق روزمرہ کے اخراجات کے لیے یومیہ خرچہ 50 سے 100 ملین دینار ہے۔ یہ رقم 43 سے 86 ملین ڈالر کے مساوی ہے۔ لیبیا کی کرنسی کا نام دینار ہے اور اس کی قدر اندرونی خلفشار سے قبل خاصی مستحکم تھی۔
باغیوں کی مالیاتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس صرف اتنی نقدی رہ گئی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ زیادہ تین یا چار ہفتے گزارا کر سکتے ہیں اور اگر رقم کا بندوبست نہ ہوا تو وہ دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیبیا کی معیشت کا انحصار خام تیل کی پیداوار پر ہے تاہم باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں تیل کی پیداوار کم ہونے کے باعث ان کی آمدنی میں مسلسل کمی آتی جا رہی ہے۔
علی ترحونی کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ فرانس، اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک انہیں ایک ہفتے سے دس دن کے اندر یہ رقم فراہم کر دیں گے۔ باغیوں کے گڑھ بن غازی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کہنا تھا، ’’ہمیں دو سے تین بلین ڈالر کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ یا ساری رقم ہمیں مل جائے گی۔‘‘
لیبیا میں گزشتہ دو ماہ سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ادویات، خوراک اور سرکاری اہلکاروں کو تنخواہوں کی فراہمی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے، جن میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
باغی نیٹو افواج کی مدد سے قذافی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں، جبکہ قذافی کی حامی اور بہتر تربیت یافتہ فورسز ابھی تک ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔
ترحونی کا کہنا تھا کہ انہیں جنگ زدہ شہروں کے عوام کے لیے خوراک، ادویات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایندھن کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انہیں مشرقی شہروں میں قذافی کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کے لیے خاصی بڑی رقم درکار ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: عابد حسین