لیبیا کے حراستی کیمپوں سے مہاجرین کے پہلے جہاز کی اٹلی آمد
صائمہ حیدر
24 دسمبر 2017
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق لیبیا کے حراستی مراکز سے ایک سو باسٹھ مہاجرین بذریعہ ہوائی جہاز اٹلی لائے گئے ہیں۔ یو این ریفیوجی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ان تارکین وطن کو لیبیا میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’ یو این ایچ سی آر ‘ کا کہنا ہے کہ افریقی ملک اریٹیریا، ایتھوپیا، صومالیہ اور یمن سے تعلق رکھنے والے ان مہاجرین کو غیر انسانی حالات میں رکھا گیا تھا اور اور انہیں انسانی اسمگلروں کی جانب سے مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔
مہاجرین کے حوالے سے وسطی بحیرہ روم کی صورت حال کی نگرانی کرنے والے یو این ایچ سی آر کے خصوصی نمائندے ونسوں کوچیتل نے کہا،’’ یہ پہلی بار ہے کہ ہم ان غیر محفوظ اور کمزور تارکین وطن کو لیبیا سے براہ راست اٹلی لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ‘‘
اٹلی میں ان ایک سو باسٹھ تارکین وطن کو مختلف مہاجرین مراکز میں منتقل کیا جائے گا اور ان کی دیکھ بھال چرچ کا فلاحی ادارہ کاریتاس کرے گا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم متعدد تنظیموں کی جانب سے یورپی یونین کو لیبیا کے حراستی کیمپوں میں مقیم مہاجرین کی حالت زار پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بحیرہء روم کے ذریعے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی کے لیے یورپی یونین لیبیا کو معاونت فراہم کر رہی ہے، جس میں کوسٹ گارڈز کی تربیت بھی شامل ہے۔
کئی ملین یورو مالیت کے اس پروجیکٹ کے تحت اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے ذریعے لیبیا میں تارکین وطن کے حراستی مراکز کی حالت زار کی بہتری کی کوشش بھی کی جا رہی ہے، تاہم وہاں ہزاروں مہاجرین اب بھی انسانوں کے اسمگلروں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
ان مہاجرین کو شدید جسمانی تشدد، جبری مشقت، غلامی اور جنسی استحصال کا سامنا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں الزام عائد کرتی ہیں کہ لیبیا کے بعض حکومتی عناصر ان اسمگلروں سے تعاون بھی کرتے ہیں۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران ریکارڈ تعداد میں ایک ملین سے بھی زائد انسان بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے تھے۔ آئی او ایم کے مطابق رواں برس تین ہزار سے زائد انسان بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔