برلن میں ہونے والی اس میٹنگ میں آئندہ انتخابات اور بیرونی فورسز پر بات چیت ایجنڈے کا اہم موضوع ہوں گے۔ اس میں لیبیا کی عبوری حکومت بھی پہلی بار شامل ہو گی۔
اشتہار
جرمن وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جرمنی اور اقوام متحدہ نے لیبیا میں امن کے قیام کے لیے مشترکہ طور پر رواں ماہ کی 23 تاریخ کوایک اور کانفرنس کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ برلن میں اس طرح کی چوٹی کانفرنس کا آغاز گزشتہ برس ہوا تھا اور یہ پہلا موقع ہو گا جب اس میں لیبیا کی عبوری قومی حکومت بھی شریک ہو گی۔
جرمن وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''عالمی برادری لیبیا میں اقوام متحدہ کے زیر قیادت امن عمل کی اپنی قریبی اور تعمیری حمایت جاری رکھنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔''
ایجنڈے میں کیا ہے؟
جرمن وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق کانفرنس کے شرکاء، ''ملک میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مستقبل کے ضروری اقدامات کے بارے میں '' غور و فکر کریں گے۔ اس بات چیت میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات پر خاص توجہ دی جائے گی جس کے لیے 24 دسمبر کی تاریخ مقرر ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس سربراہی کانفرنس میں بیرونی فورسز اور جنگجوؤں کے لیبیا سے انخلا کے بارے میں بات چیت ہو گی۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق لیبیا میں اب بھی بیس ہزار سے زیادہ بیرونی فورسز اور جنگجو موجود ہیں۔ اس میں ترکی، روس، سوڈان اور چاڈ جیسے ممالک کے فورسز اور جنگجو شامل ہیں۔ کانفرنس میں لیبیا کے اندر ایک متحدہ سکیورٹی فورسز کے قیام پر بھی اہم بحث ہوگی۔
اشتہار
حالات یہاں تک کیسے پہنچے؟
لیبیا سن 2011 میں ڈکٹیٹر معمر قذافی کے زوال کے بعد سے ہی داخلی بحران کا شکار ہے اوراقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں طرابلس میں قائم تھی تو دوسری جانب خلیفہ حفتر جو، 'لیبیئن نیشنل آرمی' کے کمانڈر ہیں ان کی ملیشیا کا مشرقی علاقے پر قبضہ رہا ہے۔
ان رقابتوں کے اختتام اور اتحاد کے مقصد سے جرمنی نے جنوری 2020 میں برلن میں امن کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں وزیر اعظم فائز السراج اور ان کے حریف خلیفہ حفتر دونوں موجود تھے تاہم دونوں نے ایک دوسرے سے ملاقات تک نہیں کی تھی۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
اس کانفرنس میں امریکا، روس، چین، برطانیہ، اٹلی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے سفارت کار اور مندوبین بھی شامل ہوئے تھے۔ کانفرنس میں، رہنماؤں نے تنازعے میں تمام طرح کی غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے اور ہتھیاروں کی پابندی کو برقرار رکھنے کا عہد کیا تھا۔
گزشتہ اکتوبر میں فریقین کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بعد ایک عبوری قومی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اس حکومت پر لیبیا کے منقسم اداروں کو متحد کرنے، تعمیر نو کی کوششوں کا آغاز کرنے اور دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں کرنے جیسی ذمہ داریاں عائد ہیں۔
لیکن لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر جان کوبس نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کی واپسی اور ملک کے مشرق اور مغرب کو ملانے والی سڑکوں کو دوبارہ کھولنے جیسے معاملات پر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔