لیبیا کے مرکزی بینک کے ڈائریکٹر کے اغوا کے سبب کام کاج ٹھپ
19 اگست 2024
مرکزی بینک نے دارالحکومت طرابلس میں اپنے ایک سینیئر اہلکار کے اغوا کے بعد پوری طرح سے کام کاج معطل کر دیا۔ بینک کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے سینیئر افسر کو رہا نہیں کیا جاتا اس وقت تک کوئی کام نہیں ہو گا۔
گزشتہ ہفتے طرابلس میں لیبیا کے مرکزی بینک کے صدر دفتر کا مسلح افراد نے محاصرہ کر لیا تھا، جس کے ایک ہفتے بعد اغوا کا یہ واقعہ پیش آیا۔تصویر: Sabri Elmhedwi/dpa/picture alliance
اشتہار
لیبیا کے مرکزی بینک نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں اطلاع دی کہ اس کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر مصعب مسالم کو اغوا کر لیا گیا ہے، جس کی ملازمین نے سخت الفاظ میں مذمت کی۔
ان کا کہنا ہے کہ مسالم کو اتوار کی صبح "نامعلوم افراد" ان کے گھر سے لے گئے اور بعض دیگر ملازمین کو بھی اغوا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ جب تک مصعب مسالم کو رہا نہیں کیا جاتا اس وقت کام کاج دوبارہ شروع نہیں کیا جائے گا۔
مرکزی بینک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دیگر ایگزیکٹوز کو بھی "اغوا کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔"
اپنے بیان میں بینک نے اغوا کاروں کے گروپ کو "غیر قانونی پارٹی" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کہا کہ یہ گروپ "بینک کے ملازمین کی حفاظت اور بینکنگ سیکٹر کے کام کے تسلسل کے لیے خطرہ ہیں۔"
مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے بینک کے گورنر صدیق الکبیر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
طرابلس میں امریکی سفیر رچرڈ نورلینڈ نے صدیق الکبیر کو ہٹانے کی کوششوں کو "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے محاصرے کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اگر طاقت کے ذریعے ان کے عہدے پر کسی اور کو تعینات کیا گیا، تو "لیبیا کی بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں تک رسائی ختم ہو سکتی ہے۔"
لیبیا کا مرکزی بینک ایک آزاد ادارہ ہے، تاہم لیبیا کی ریاست کی ملکیت ہے۔ یہی بینک لیبیا کے تیل کی آمدن کے لیے واحد بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ادارہ ہے۔
لیبیا وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کی قیادت والی طرابلس میں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت اور مشرقی لیبیا میں ایک حریف انتظامیہ کے درمیان منقسم ہے۔ مشرقی لیبیا میں قومی پارلیمنٹ قائم ہے، جو فوجی کمانڈر خلیفہ ہفتر کے زیر انتظام ہے۔