لیبیا کے میطیق چند گھنٹے کے وزیر اعظم ثابت ہوئے
5 مئی 2014حکام نے پارلیمانی الیکشن کے متضاد نتائج پیش کیے تھے۔ فرسٹ ڈپٹی اسپیکر عزالدین العوامی کا کہنا تھا کہ میطیق سب سے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود لازمی اکثریتی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
تاہم سیکنڈ ڈپٹی اسپیکر صالح مخزوم نے بعد ازاں کہا کہ میطیق کو مقررہ اکثریتی ووٹ مل گئے ہیں۔ مخزوم نے میطیق کو آئندہ دو ہفتوں میں نئی حکومت بنانے کی ہدایت بھی کر دی تھی۔ انہوں نے اسمبلی کی ٹیلی وژن پر نشر کی گئی کارروائی کے دوران کہا: ’’احمد میطیق باضابطہ طور پر نئے وزیر اعظم ہیں۔‘‘
اس موقع پر بعض ارکانِ پارلیمنٹ مخزوم کے اس اعلان کی مخالفت میں نعرے لگا رہے تھے۔ اس کے چند گھنٹوں بعد العوامی نے ووٹنگ کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ انہوں نے تین ہفتے قبل مستعفی ہونے والے عبداللہ التینی سے کہا وہ اقتدار سنبھالے رکھیں۔
اس حوالے سے العوامی نے التینی کو ایک خط لکھا ہے جو کابینہ کی ویب سائٹ پر جاری کر دیا گیا۔ اس خط میں العوامی نے لکھا: ’’احمد عمر میطیق قانون کے تحت نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے مقررہ 120ووٹ لینے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
روئٹرز کے مطابق اس پیش رفت پر احمد میطیق، مخزوم یا ان حامیوں کی جانب سے کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ خیال رہے کہ التینی نے اقتدار سنبھالنے کے پہلے مہینے میں ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے استعفے کے بعد وزیر اعظم کی کرسی خالی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والی ووٹنگ کی قانونی حیثیت پر ارکانِ پارلیمنٹ میں شدید اختلاف رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس صورتِ حال سے واضح ہوتا ہے کہ لیبیا کی اسمبلی میں اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ اسمبلی پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے جس سے ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کی نشاندہی ہوتی ہے۔ 2011ء میں معمر قذافی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد پرتشدد کارروائیاں زوروں پر ہیں جبکہ حکومت اور پارلیمنٹ بے بس دکھائی دیتی ہیں۔
ابھی گزشتہ ہفتے منگل کو ہی مسلح افراد نے پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا، جب جنرل نیشنل کانگریس کے ارکان وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ شروع کرنے والے تھے۔ اس کے نتیجے میں ووٹنگ مؤخر کرنا پڑ گئی تھی۔
گزشتہ منگل کو اس سلسلے میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں احمد میطیق وزارت عظمیٰ کے لیے دیگر چھ امیدواروں سے آگے تھے۔ حملہ آور پارلیمنٹ میں اس وقت داخل ہوئے جب اس سلسلے میں دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہونا تھی۔
لیبیا کی اسمبلی اسلام پسندوں، قبائلیوں اور قوم پرستوں کے درمیان بٹی ہوئی ہے۔ قذافی کا تختہ الٹنے میں مدد دینے والے باغی اب بے قابو ہو چکے ہیں جبکہ ناتجربہ کار ملکی فوج کو ان باغیوں کو کنٹرول کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔