1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا کے وزیر اعظم فائز السراج مستعفی ہونا چاہتے ہیں

17 ستمبر 2020

خانہ جنگی کے شکار ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے سربراہ فائز السراج اگلے ماہ کے آخر تک اپنے عہدے سے دست بردار ہو جانا چاہتے ہیں۔

Fayez al-Sarraj
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/PPI

لیبیا میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں اقو ام متحدہ کے حمایت یافتہ وزیر اعظم فائز السراج نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ اگلے ماہ کے اواخر تک اقتدار کسی نئی حکومت کو سونپ دینا چاہتے ہیں۔

دارالحکومت طرابلس سے ٹیلی وژن پر قوم سے اپنے خطاب میں فائز السراج نے کہا، ”میں اکتوبر کے آخر تک ملک میں اقتدار ایک نئی اعلیٰ مقتدرہ کے حوالے کر دینے کے اپنے مخلصانہ ارادے کا اعلان کرتا ہوں۔"

انہوں نے یہ اعلان ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب ملک میں جاری مسلح تصادم کو ختم کرنے کے لیے لیبیا کے متحارب گروپوں کے مابین بات چیت جاری ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں ان حریف گروپوں نے اگلے 18ماہ کے اندر اندر ملک میں انتخابات کرانے اور ایک نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کو یقینی بنانے پر اتفاق کر لیا تھا۔

لیبیا کے عوام معمول کی زندگی کے خواہاں

02:54

This browser does not support the video element.

سراج حکومت میں پچھلے ماہ اس وقت داخلی اختلافات سامنے آئے تھے، جب ملک میں بدعنوانی اور طرابلس سمیت کئی مغربی شہروں میں بجلی کی ترسیل منقطع ہونے کے معاملے پر زبردست عوامی احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔  ایسے مظاہرے ملک کے جنوب اور مشرقی علاقوں میں بھی کیے گئے تھے۔

2011میں کیبیا کے رہنما کرنل معمر قذافی کی حکومت کا خاتمے کے بعد سے لیبیا کے مشرقی اور مغربی علاقے پر دو متحارب گروپوں کا کنٹرول ہے۔

فائز السراج طرابلس میں قائم قومی وحدت کی حکومت کے سربراہ ہیں۔ اقو ام متحدہ بھی اسی حکومت کو تسلیم کرتا ہے جب کہ لیبیا کے مشرقی علاقے پر سراج کے حریف جنگی سردار خلیفہ حفتر کو کنٹرول حاصل  ہے۔

چند روز قبل مشرقی لیبیا کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم عبداللہ الثانی نے بھی مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ مظاہرین نے مشرقی لیبیا کے شہر بن غازی میں حکومتی دفاتر کو نذر آتش کر دیا تھا جب کہ المعرج شہر میں بھی مظاہرین نے کئی دفاتر کو آگ لگا دی تھی۔ جنوبی شہر الصباح اور البادیہ میں بھی بڑے حکومت مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔

معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے لیبیا کئی برسوں سے افراتفری اور انتشار کا شکار ہے۔ اسی انتشار کے خلاف گزشتہ جمعرات کو احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور تب سے کئی شہروں میں بار بار بجلی کی فراہمی منقطع کر دیے جانے کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ بینکوں کی کیش مشینوں میں نقد رقوم کی شدید کمی ہے، تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور عوام ان تمام مسائل سے بری طرح پریشان ہیں۔ اس دوران پانی کی فراہمی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، خاص طور پر ملک کے مغربی حصوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

ج ا /  م م (اے پی، روئٹرز)

مہاجرین کی لاشیں پاکستان پہنچ گئیں

01:22

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں