1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیبیا: ہزاروں مسلح جنگجوؤں کی پولیس میں بھرتی

7 جنوری 2013

لیبیا میں گزشتہ سال قائم ہونے والی سویلین اور جمہوری حکومت کو مسلح ملیشیا کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے میں ابتدائی کامیابی حاصل ہوئی ہیں۔ اب ہزاروں افراد کو پولیس کی تربیت دینے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

تصویر: Reuters

شمالی افریقی ملک لیبیا میں معتوب و مقتول آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد بننے والی پہلی جمہوری حکومت کے وزیر داخلہ عاشور سہیل نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا ہے کہ قذافی کے خلاف جنگ کرنے والے مختلف ملیشیا کے مسلح گرویوں کو غیر مسلح کرنے میں جمہوری حکومت کو ابتدائی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جو انتہائی حوصلہ افزاء ہیں۔ عاشور سہیل کے مطابق اس وقت چھ ہزار کے قریب ملیشیا جنگجو پولیس کی تربیت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

لیبیا کے وزیر اعظم علی زیدانتصویر: Reuters

عاشور سہیل کو وزیراعظم علی زیدان نے کابینہ میں شامل کرتے ہوئے وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا تھا۔ وزیر داخلہ بننے سے قبل قانون کے پروفیسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ آمریت سے جمہوریت میں تبدیل ہوتے لیبیا کو ’اسٹریٹ پاور‘ کے بڑے خطرے کا سامنا ہے اور کئی دوسرے ملیشیا گروپ ابھی بھی شہروں میں موجود ہیں اور ان کو بھی قائل کرنے کا عمل جاری ہے۔ لیبیا میں علی زیدان کی حکومت کا باقاعدہ قیام 14 نومبر سن 2012 کو آیا تھا۔ علی زیدان کو پہلے پارلیمانی الیکشن کے ذریعے بننے والی جنرل نیشنل کانگریس نے وزیراعظم کے لیے منتخب کیا تھا۔

سن 2011 میں قذافی کے زوال کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت نے امن و سلامتی کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے سپریم سکیورٹی کمیٹی کو قائم کیا تھا۔ اس سکیورٹی کمیٹی میں مختلف ملیشیا گروہوں کے سردار شامل تھے۔ عام انتخابات تک لیبیا کی وزارت داخلہ اس سکیورٹی کمیٹی کے اخراجات کی ذمہ دار تھی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لیبیا کی پہلے سے موجود پولیس کے مقابلے میں سکیورٹی کمیٹی کے ملیشیا گروپوں میں شامل افراد بہتر اسلحے سے لیس ہیں۔

لیبیا کی نیشنل جنرل کانگریس کے صدر محمد المغاریف، درمیان میںتصویر: Reuters

عاشور سہیل کے مطابق ملیشیا گروپوں سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار کے قریب افراد سپریم سکیورٹی کمیٹی میں شریک گروپوں کا صرف دس فیصد ہے۔ لیبیا کے وزیرداخلہ کے مطابق مسلح گروپوں کو غیر مسلح کرنے کا پروگرام گزشتہ سال کے اختتام پر شروع کیا گیا تھا اور اس مناسبت سے قواعد و ضوابط کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ ان قواعد کے تحت پڑھے لکھے افراد بہتر پوزیشن حاصل کر سکیں گے۔ عاشور سہیل نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اگلے ہفتوں کے دوران مزید مسلح افراد اس پروگرام میں شامل ہو کر لیبیا کی تعمیر و ترقی کے نئے عمل کا حصہ بنیں گے۔

ادھر لیبیا کی نیشنل اسمبلی کے صدر محمد یوسف المغاریف ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے ہیں۔ ان پر حملہ صبہا کے نخلستان کے ایک ہوٹل میں کیا گیا۔ جمعرات کے روز علی الصبح ہونے والے حملے کی تصدیق اتوار کے روز کی گئی۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، اس پر حملہ تین گھنٹے تک جاری رہا۔ حملہ آوروں کو نشانچیوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ حملہ آور جوابی کارروائی کے بعد فرار ہو گئے جبکہ سکیورٹی اہلکار کسی کو بھی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔

(ah / ab (Reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں