لیبین نیشنل آرمی کے خلیفہ حفتر نے ترکی کو دشمن قرار دے دیا
30 جون 2019
لیبین نیشنل آرمی کے سربراہ اور باغی جرنیل خلیفہ حفتر نے ترکی کو اپنا دشمن قرار دے دیا ہے۔ حفتر نے حکم دیا ہے کہ تمام ترک باشندے گرفتار کر لیے جائیں اور ترکی اور لیبیا کے مابین فضائی اور بحری آمد و رفت بھی روک دی جائے۔
اشتہار
لیبیا میں کئی برسوں سے جاری اقتدار کی جنگ اور مسلسل بدامنی کے ماحول میں باغی جنرل خلیفہ حفتر کو خانہ جنگی کے مرکزی فریقین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ان کی لیبین نیشنل آرمی کہلانے والی ملیشیا کو بہت زیادہ عسکری طاقت حاصل ہے اور ملک کے کئی علاقے اس کے قبضے میں ہیں۔ اب لیبین نیشنل آرمی یا ایل این اے کے اس سربراہ نے الزام لگایا ہے کہ ترکی لیبیا میں حفتر کے سیاسی مخالفین کی حمایت کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقرہ حکومت کو اس کی موجودہ 'سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبو رکرنے کے لیے‘ حفتر کا موقف شدید تر ہو گیا ہے۔
تمام ترک باشندوں کی گرفتاری کا حکم
خلیفہ حفتر کی فورسز کے ترجمان احمد المسماری کے مطابق ایل این اے کے سربراہ نے حکم دے دیا ہے کہ لیبیا کی سمندری حدود میں موجود ترک بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ ترکی کے مزید کسی بھی بحری جہاز کو لیبیا کی سمندری حدود میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے اور دونوں ممالک کے مابین سمندری کے علاوہ تمام فضائی رابطے بھی منقطع کر دیے جائیں۔ المسماری کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق ترکی اور لیبیا کے مابین ہوائی جہازوں کی تجارتی پروازوں پر بھی ہو گا۔
لیبین نیشنل آرمی کے ترجمان کے مطابق خلیفہ حفتر نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ اب تمام ترک بحری اور ہوائی جہاز اس ملیشیا کے لیے ایسے اہداف ہوں گے، جنہیں دشمن سمجھ کر نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ لیبیا میں ہر قسم کی ترک تنصیبات اور اداروں کو بھی حفتر کے دستوں کے دشمن سمجھا جائے گا۔ مزید یہ کہ لیبیا میں اس وقت جتنے بھی ترک شہری مقیم ہیں، ان کو بھی آئندہ گرفتار کر لیا جائے گا۔
لیبیا کے تنازعے میں مزید شدت یقینی
مختلف خبر ایجنسیوں کے مطابق بدامنی کے شکار لیبیا میں خلیفہ حفتر کا یہ فیصلہ اس شمالی افریقی ملک میں پہلے سے پائے جانے والے خونریز تنازعے میں یقینی طور پر مزید شدت کا سبب بنے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی کا شمار ان متعدد مغربی ممالک، نیٹو کی رکن ریاستوں اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں ہوتا ہے، جو لیبیا میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ وزیر اعظم السراج کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور یہ بات خلیفہ حفتر کے لیے قابل قبول نہیں۔
اسی پس منظر میں لیبین نیشنل آرمی کے ترجمان نے حفتر کی سوچ کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ترکی 'لیبیا کے داخلی امور میں شرمناک مداخلت‘ کر رہا ہے۔ خلیفہ حفتر لیبیا میں ماضی کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں ملکی فوج کے ایک اعلیٰ افسر تھے اور ان کی مسلح ملیشیا کے ارکان زیادہ تر مشرقی لیبیا میں کئی علاقوں پر قابض ہیں۔
جدید دور میں طویل عرصے تک اقتدار پر براجمان رہنے والے حکمران
کئی ملکوں پر طویل عرصہ حکمران رہنے والوں میں فیڈل کاسترو، چیانگ کائی شیک اور کم اِل سُنگ کے نام اہم ہیں۔ یہ 40 برسوں سے زائد عرصے اپنے ملکوں پر حکومت کرتے رہے۔ معمر اقذافی بھی لیبیا پر 40 برس سے زائد حکومت کرتے رہے تھے۔
تصویر: AP
کیمرون: پال بیا
افریقی ملک کیمرون پر صدر پال بیا گزشتہ پینتیس برس سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سن 1975 سے ان 1982ء تک ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ پچاسی برس کے ہیں۔ رابرٹ موگابے کے بعد اب وہ سب صحارہ خطے کے سب سے بزرگ صدر ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/E. Blondet
کانگو: ڈینیس ساسو
ایک اور افریقی ملک کانگو کے صدر ڈینیس ساسو کی مدت صدارت چونتیس سال بنتی ہے۔ پہلے وہ سن 1979 سے 1992 تک صدر رہے اور پھر سن 1997 سے منصبِ صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ساسو 1992 کا صدارتی الیکشن ہار گئے تھے لیکن بعد میں کانگو کی دوسری خانہ جنگی کے دوران اُن کے حامی مسلح دستوں نے اُس وقت کے صدر پاسکل لیسُوبو کو فارغ کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
کمبوڈیا: ہُن سین
مشرق بعید کے ملک کمبوڈیا میں منصبِ وزارت عظمیٰ پر ہُن سین پچھلے بتیس برسوں سے براجمان ہیں۔ وہ اِس وقت کسی بھی ملک کے سب سے طویل عرصے سے وزیراعظم چلے آ رہے ہیں۔ اُن کا اصلی نام ہُن بنال تھا لیکن انہوں نے کھیمر روژ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے نام تبدیل کر کے ہُن سین کر لیا تھا۔ وہ سن 1985 میں کمبوڈیا کے وزیراعظم بنے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M, Remissa
یوگینڈا: یوویری موسیوینی
یوگینڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے منصب سن 1986 میں سنبھالا تھا۔ وہ دو سابقہ صدور عیدی امین اور ملٹن اوبوٹے کے خلاف ہونے والی بغاوت کا حصہ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے کہ موسیوینی کے دور میں یوگینڈا کو اقتصادی ترقی سیاسی استحکام ضرور حاصل ہوا لیکن ہمسایہ ملکوں کے مسلح تنازعات میں ملوث ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
ایران: آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای
ایران میں اقتدار کا سرچشمہ سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای کو تصور کیا جاتا ہے۔ وہ گزشتہ انتیس برسوں سے اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ وہ سن 1981سے 1989 تک ایران کے صدر بھی رہے تھے۔
تصویر: khamenei.ir
سوڈان: عمر البشیر
سوڈانی صدر عمر حسن البشیر تیس جون سن 1989 سے اپنے ملک کے صدر ہیں۔ وہ اپنے ملک کی فوج میں بریگیڈیر بھی تھے اور تب انہوں نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم صادق المہدی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ حاصل کیا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Abdallah
چاڈ: ادریس دیبی
وسطی افریقی ملک چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے سن 1990 میں صدر حسین ہابرے کی حکومت کو ختم کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ وہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر اقذافی کے عالمی انقلابی مرکز میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ وہ گزشتہ پانچ صدارتی انتخابات میں بھاری ووٹوں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر ملکی اپوزیشن اور عالمی مبصرین انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Marin
قزاقستان: نور سلطان نذربائیف
وسطی ایشیائی ملک قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف اٹھائیس برس سے ملکی صدر چلے آ رہے ہیں۔ قزاقستان سابقہ سویت یونین کی ایک جمہوریہ تھی اور اس کے انہدام پر ہی یہ آزاد ہوئی تھی۔ نور سلطان اُس آزادی کے بعد سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ قزاقستان کی آزادی سے قبل وہ قازق کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/Sputnik/S. Guneev
تاجکستان: امام علی رحمان
ایک اور وسطی ایشیائی ریاست تاجکستان پر بھی امام علی رحمان سن 1992 سے حکومت کر رہے ہیں۔ تاجکستان بھی سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ تھی۔ امام علی رحمان کو اپنی پچیس سالہ صدارت کے ابتدائی عرصے میں شدید خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس میں تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ تاجکستان کو وسطی ایشیا کا ایک غریب ملک تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/G. Faskhutdinov
اریٹیریا: ایسائیس افویرکی
ایسائیس افویرکی اپنے ملک کی آزادی سے منصب صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی آزادی کے لیے ایتھوپیا کی حکومت کے خلاف برسوں آزادی کی تحریک جاری رکھی۔ اریٹیریا کو مئی سن 1991 میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
10 تصاویر1 | 10
اس کے علاوہ اسی سال اپریل میں حفتر کی ملیشیا نے السراج کی حکومت کے عسکری مخالفین کے ساتھ مل کر طرابلس پر قبضے کے لیے بڑی کارروائی بھی شروع کر دی تھی۔
بن غازی ایئر پورٹ سے پروازیں بند
لیبین نیشنل آرمی کے سربراہ خلیفہ حفتر کے ترکی کو اب اپنا دشمن قرار دے دینے کے تازہ فیصلے کے بعد بن غازی شہر میں قائم ہوائی اڈے پر حفتر کے اس حکم نامے پر عمل درآمد شروع بھی کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ بن غازی شہر کا ہوائی اڈہ حفتر کی ملیشیا ہی کے قبضے میں ہے۔
اس ایئر پورٹ سے تجارتی پروازوں کے نگران اعلیٰ ترین اہلکار اسامہ منصور نے بتایا کہ وہاں سے ترکی کے لیے تمام مسافر پروازیں روک دی گئی ہیں۔ لیبیا کے شہر بن غازی سے اس فیصلے پر عمل درآمد سے قبل روزانہ تین مسافر پروازیں ترکی کے شہر استنبول کے لیے روانہ ہوتی تھیں۔