1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستلیتھوانیا

لیتھوانیا: جرمن فوجیوں کی تعیناتی کے لیے تعمیری کام کا آغاز

20 اگست 2024

جس جگہ جرمن فوجی اڈے کے لیے تعمیر کا کام شروع ہوا ہے، وہ روس کے اتحادی بیلاروس کے ساتھ لیتھوانیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی غیر ملکی سرزمین پر پہلی بار یہ جرمن فوجیوں کی مستقل تعیناتی ہو گی۔

لتھوانیا میں جرمن ہتھیار
لتھوانیا کے چیف آف ڈیفنس ریمنڈاس وائیکسنوراس نے کہا کہ ان کا ملک سن 2027 کے اواخر تک مکمل ہونے سے قبل روڈننکائی بیس پر تقریباً ایک بلین یورو خرچ کرے گاتصویر: PETRAS MALUKAS/AFP

ایک نئے فوجی اڈے کی تعمیر کے آغاز کے موقع پر لیتھوانیا اور جرمن حکام نے پیر کے روز ایک تقریب میں شرکت کی۔ سن 2027 کے اواخر تک اس مذکورہ فوجی اڈے کے مکمل ہونے پر 4,000 جرمن فوجی وہاں پر تعینات کیے جائیں گے، جو ہمہ وقت جنگ کے لیے تیار ہوں گے۔

نیٹو کی طرف سے روس کے خلاف سخت تر اقدامات

اس کے علاوہ مزید تقریبا ایک ہزار ٹھیکیداروں اور دیگر عملے کو ملک میں کسی دوسرے مقام پر رکھا جائے گا۔

امریکہ نے جرمنی کے لیے میزائلوں کی فروخت کو منظوری دے دی

سن 2022 میں یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے جرمن فوجیوں کو لیتھوانیا میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس جرمنی نے نیٹو اور یورپی یونین کے رکن اس ملک میں مستقل طور پر اپنے فوجی تعینات کرنے کا عہد کیا تھا۔

جرمنی میں امریکی میزائل تعیناتی منصوبے سے جرمن شہری فکرمند

ان خدشات کے درمیان کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نیٹو کے رکن ممالک پر حملے کی دھمکیوں پر عمل بھی کر سکتے ہیں، دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کی غیر ملکی سرزمین پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی مستقل تعیناتی ہو گی۔

جرمن وزیر دفاع کی مشرق وسطیٰ اور انڈو پیسیفک امور پر گفتگو

یہ فوجی چھاؤنی روس کے اتحادی ملک بیلاروس کے ساتھ لیتھوانیا کی سرحد سے صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر دارالحکومت ولنیئس کے قریب ہی واقع ہو گی۔

یوکرین کا روسی حملوں کے خلاف مؤثر فضائی دفاع ناگزیر، جرمن چانسلر

 تقریب میں شرکت کرنے والی لیتھوانیا کی وزیر اعظم انگرڈ سیمونیٹے نے جرمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "اگر ہم محفوظ نہیں ہیں تو ان کے لیے بھی کوئی سکیورٹی نہیں ہے۔"

جرمنی نے یوکرین کو روس میں اہداف نشانہ بنانے کی اجازت دے دی

انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں کہا کہ "لیتھوانیا اور اس کے اتحادیوں کی سلامتی کی طرف ایک اور قدم: آج اپنی آنے والی نسلوں کو پیغام بھیجتے ہوئے ہم نے بریگیڈ کے لیے بنیادی ڈھانچے کے فوجی کیمپس کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کیا۔ ہم دھمکی نہیں دیتے، بس اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ، اگر کوئی ہماری طاقت کو جانچنا چاہتا ہے، تو وہ کسی گمان میں نہ رہے۔"

جرمنی دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنائے گا

02:54

This browser does not support the video element.

لیتھوانیا کا دفاعی اخراجات میں اضافہ

لیتھوانیا کی وزیر اعظم انگرڈ سیمونیٹے کی حکومت نے کئی سالوں سے طے شدہ دفاعی اخراجات میں اضافے کی حمایت کے لیے ٹیکس میں اضافہ متعارف کروایا ہے۔ اس سال لیتھوانیا نے اپنے دفاعی اخرجات کو بڑھا کر اپنی جی ڈي پی کا تین فیصد تک کر دیا ہے۔

یوکرین میں روسی فوجی مداخلت کے دو سال: مغربی رہنما کییف میں

لیتھوانیا کے چیف آف ڈیفنس ریمنڈاس وائیکسنوراس نے کہا کہ ان کا ملک سن 2027 کے اواخر تک مکمل ہونے سے قبل روڈننکائی بیس پر تقریباً ایک بلین یورو خرچ کرے گا۔ لیتھوانیا کی تاریخ میں یہ اب تک سب سے بڑا تعمیری منصوبہ ہے۔

بڑھتے سکیورٹی خدشات، ڈونلڈ ٹسک جرمنی اور فرانس کے دورے پر

انہوں نے اس منصوبے کو "ایک بہت بڑی سرمایہ کاری" قرار دیتے ہوئے مزید کہا، "بریگیڈ ہماری آبادی کو یقین دہانی اور روسیوں کو باہر نکالنے کے لیے ڈیٹرنس کے طور پر کام کرے گی۔"

یورپ ہتھیاروں کی پیداوار بڑھائے، نیٹو سربراہ

جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے جرمن فوجیوں کی تعیناتی کے اس فیصلے کا موازنہ سرد جنگ کے دوران مغربی جرمنی میں تعینات اتحادیوں کے فوجیوں سے کیا۔

نیٹو نے توپ کے دو لاکھ سے زائد گولے خریدنے کا معاہدہ کرلیا

ابھی تک اس مقام پر تعمیرات کے تقریباً  بیس فیصد منصبوں کو تعمیر کے لیے ٹھیکے پر دیا گیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ شاید یہ اڈہ شیڈول کے مطابق مکمل نہیں ہو پائے گا۔ حالانکہ لیتھوانیا کے وزیر دفاع نے وعدہ کیا ہے کہ حکومت رواں برس کے آخر تک باقی تمام ٹھیکے دے دے گی۔

برلن میں بھی بجٹ پر ہونے والے تنازعے سے ملک کی فوج کو اپ گریڈ کرنے کے جرمن وعدوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے لیتھوانیا میں اس مذکورہ اڈے کی تعیناتی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز)

کیا جرمنی یورپ میں نیٹو کی قیادت کر سکتا ہے؟

02:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں