1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لیسبوس کی مقامی حکومت بھی سراپا احتجاج

18 نومبر 2017

یونانی جزیرے لیسبوس کے حکام نے عام ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ اس احتجاج کا مقصد یورپی یونین پر دباؤ بڑھانا کہ وہ اس جزیرے پر موجود مہاجرین کو دیگر علاقوں میں جانے کی اجازت دیں۔

Griechenland - Flüchtlignscamp in Lesbos
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis

خبر رساں ادارے اے پی نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حکومت مخالف ہڑتال بیس نومبر بروز پیر کی جائے گی۔ یونانی جزیرے لیسبوس کی میونسپلٹی نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں اس احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوں تاکہ ایتھنز حکومت اور یورپی یونین پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔

یونان: پاکستانیوں سمیت کئی تارکین وطن کی ترکی واپسی

یونان سے ترکی ملک بدر ہونے والوں میں پاکستانی سرفہرست

اِک آگ سے گزرے تو سمندر پار ہوا

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

02:33

This browser does not support the video element.

یورپی یونین کی پالیسی کے تحت لیسبوس میں مقیم مہاجرین دیگر علاقوں میں نہیں جا سکتے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپی یونین کی اس پالیسی کے باعث کم ازکم آٹھ ہزار مہاجرین اس جزیرے میں محصور ہو رہ گئے ہیں جبکہ لیسبوس کے مہاجر استقبالیہ مراکز میں ڈیڑھ ہزار مہاجرین کی رہائش کا انتظام ہے۔ اس صورتحال میں نہ صرف مقامی حکومت کو شدید انتظامی مسائل کا سامنا ہے بلکہ لیسبوس میں مہاجرین کی حالت زار بھی تکلیف دہ بن چکی ہے۔

ہفتے کے دن لیسبوس کی میونسپلٹی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کی سخت مہاجر پالیسی کی وجہ سے جزیرہ ’مہاجرین کے لیے ایک جیل‘ بن چکا ہے۔ لیسبوس کے علاوہ دیگر قریبی یونانی جزائر میں کوس، ساموس، لیروس اور چیوس میں بھی مہاجرین کے لیے صورتحال پریشان کن ہے۔

ان جزائر کے میئرز پہلے بھی متعدد بار مطالبہ کر چکے ہیں کہ وہاں پہنچنے والے مہاجرین کو وسطی یونان جانے کی اجازت دی جائے۔ بہت زیادہ تعداد میں مہاجرین کی آمد کے باعث ان چھوٹے چھوٹے جزائر انتظامی حوالے سے مہاجرین کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہیں ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین پہلے انہی جزائر پر قدم رکھتے ہیں۔

یونانی جزیرے لیسبوس کے رہائشیوں نے مہاجرین کی دل کھول کر مدد کی لیکن اس بحران کی وجہ سے عالمی شہرت یافتہ اس تعطیلاتی مقام پر سیاحت کی صنعت کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ترکی اور یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق ڈیل کے نتیجے میں یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جزیرے پر جو تباہی ہونا تھی وہ ہو چکی ہے۔

اگرچہ گزشتہ کچھ سالوں کے مقابلے میں اب اس جزیرے کی صورتحال بہتر ہو چکی ہے لیکن میڈیا پر نشر کی جانے والی پرانی تصاویر کی وجہ سے سیاح اب اس مقام پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں