لیو شیاؤبو سیاسی اصلاحات کی جدوجہد میں موت کی دہلیز پر
12 جولائی 2017لیو شیاؤبو کے خاندان کے افراد نے ہسپتال کو اجازت نہیں دی کہ سانس لینے میں مشکلات کے لیے مصنوعی سہارا استعمال کیا جائے۔ طبی ذرائع کے مطابق جگر کے کینسر کی وجہ سے اب اُن کا نظام تنفس میں بھی ناکارہ ہونے کے قریب ہے۔ شیاؤبو کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے اور ان کو اس کے علاج کے لیے دی جانے والی ادویات بھی روک دی گئی ہیں۔ ان طاقتور ادویات کے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
شیاؤبو کے علاج کے لیے چینی عدالتی بیورو نے بین الاقوامی ماہرین کو معاونت کرنے کی اپیل بھی کی تھی۔ اس کے جواب میں امریکی ریاست ٹیکساس کے انتہائی اہم کینسر ریسرچ ہسپتال کے ڈاکٹر اور جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ میں واقع انتہائی جدید کینسر ریسرچ ٹیچنگ ہسپتال کے ماہرین نے اُن کا معائنہ کیا تھا۔
دونوں غیر ملکی ڈاکٹروں نے چینی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ لیو شاؤبو کو امریکا یا جرمنی منتقل کر دیا جائے کیونکہ وہاں موجود سہولیات سے علاج کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ چینی حکومت نے شیاؤبو کو بیرون ملک منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی، وہ پہلے ہی ایسی درخواست مسترد کر چکی ہے۔
جرمنی نے آج ایک مرتبہ پھر چینی نوبل انعام یافتہ شخصیت کے علاج کے لیے پیشکش کی ہے۔ جرمن حکام نے بیجنگ حکومت سے کہا ہے کہ وہ علاج کے لیے شیاؤبو کو جرمن لے کر جانے کی اجازت دے۔ جرمن پیشکش کی تفصیلات چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبیرٹ کی جانب سے جاری کی گئی ہیں۔
چین نے نوبل امن انعام یافتہ رہنما لیُو شیاؤبو کو رہا کر دیا
چینی حکومت کے ناقد اور سیاسی اصلاحات کی جدوجہد کرنے والے لیو شیاؤبو کو 2009ء میں ریاست کے خلاف اقدامات کے الزام میں 11 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں یہ سزا ’چارٹر 8‘ نامی ایک پٹیشن لکھنے پر دی گئی جس میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جگر کے کینسر میں مبتلا شیاؤبو کو بیماری کی شدت کے باعث حال ہی میں جیل سے چائنا میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک فرسٹ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔