ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا جھوٹا دعویٰ، دو پولیس افسران برطرف
مقبول ملک اے ایف پی
8 اگست 2017
دو بھارتی پولیس افسران کو گزشتہ برس دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مرد ہے اور دوسری خاتون اور یہ دونوں آپس میں شادی شدہ ہیں۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے منگل آٹھ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی حکام نے آج بتایا کہ اس شادی شدہ جوڑے نے، جو دونوں پولیس افسران ہیں، گزشتہ برس یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے نیپال میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا تھا۔
لیکن دراصل انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا اور اسی وجہ سے اب کھٹمنڈو میں ملکی حکومت نے ان دونوں بھارتی شہریوں کے کوہ پیمائی کے لیے نیپال میں داخلے پر دس سال کی پابندی بھی لگا دی ہے۔
کھٹمنڈو حکومت نے مطابق ان بھارتی شہریوں کے نام دنیش راٹھور اور تارا کیشواری راٹھور ہیں، جنہوں نے ’دنیا کی چھت‘ پر چڑھ کر کوہ پیمائی کا اعلیٰ ترین انفرادی اعزاز حاصل کرنے کے اپنے چھوٹے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے جو تصویریں جاری کی تھیں، وہ درحقیقت ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے ہی میں اتاری گئی ایسی تصاویر تھیں، جنہیں کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے رد و بدل کے بعد اس طرح بنانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جیسے یہ بھارتی ہندو جوڑا ماؤنٹ ایورسٹ پر کھڑا ہو۔
اے ایف پی کے مطابق یہ دونوں کوہ پیما آپس میں شادی شدہ ہونے کے علاوہ مغربی بھارتی شہر پونا کی پولیس کے دو افسران بھی ہیں۔ انہیں ان کے اس جھوٹے اور غیر قانونی دعوے کا اب یہ نتیجہ بھی مل گیا ہے کہ پونا کی پولیس نے اس معاملے میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد انہیں ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا ہے۔
پونا کے ایڈیشنل پولیس کمشنر صاحب راؤ پاٹل نے اے ایف پی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ان دونوں افسران کے خلاف محکمے کی اندرونی انکوائری مکمل ہونے کے بعد انہیں گزشتہ ہفتے کے روز ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔‘‘
پاٹل نے کہا، ’’ان دونوں افسران کے خلاف یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ انہوں نے نہ صرف میڈیا کو غلط معلومات فراہم کیں بلکہ بھارتی اور نیپالی حکومتوں کو بھی دھوکا دیا۔‘‘
اس دھوکا دہی کے ثابت ہو جانے سے قبل 23 مئی 2016ء کو کھٹمنڈو میں نیپالی حکومت نے دنیش راٹھور اور ان کی اہلیہ تارا کیشواری راٹھور کو یہ سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیے تھے کہ انہوں نے 8,848 میٹر یا 29,029 فٹ بلند دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کر لیا تھا۔ انہیں جاری کیا گیا یہ سرٹیفیکیٹ اب منسوخ کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں نے مشکل اور کٹھن چوٹی سر کر لی
پاکستان میں پہلی مرتبہ خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم نے گلگت بلتستان کی شمشال وادی کی ایک بلند اور مشکل چوٹی کو سر کیا ہے۔ اس ٹیم کا مقصد خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا اور انہیں کٹھن کھیلوں کی طرف راغب کرنا ہے۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین کوہ پیما
خواتین کوہ پیماؤں کی اس مہم جوئی کا اعلان پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کی جانب سے سوشل میڈیا پرکیا گیا تھا۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس مہم کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی۔ جسمانی فٹنس کی بنیاد پر چارخواتین کو اس ٹیم کا حصہ بننے کے لیے چنا گیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ، کے ٹو سمیت دنیا کے سات براعظموں کے سات بلند ترین پہاڑ سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما ثمینہ بیگ نے اس مہم جوئی کی سربراہی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین میں خود اعتمادی پیدا کرنا
اس ٹیم میں امریکی اور ناروے کی خواتین کوہ پیما بھی شامل تھیں۔ پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق ان کی شمولیت کا مقصد پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں کے درمیان صلاحیتوں اور معلومات کا تبادلہ تھا۔ خواتین کی اس ٹیم نے شمشال گاؤں کی گوجریو وادی میں ایک کٹھن اور پانچ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ’ بوئیسوم پاس‘ کو سر کیا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت
کوہ پیمائی کے پہلے دن شمشال گاؤں سے خواتین نے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت طے کی۔ ٹیم نے پہلا قیام سطح سمندر سے 4100 میٹر بلند ایک مقام پر کیا۔ یہاں ایک دن قیام کے بعد اس ٹیم نے سطح سمندر سے 4700 میٹر بلند مقام تک کوہ پیمائی کی۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خراب موسم اور کٹھن راستے
خراب موسم اور کٹھن راستے کی وجہ سے کچھ خواتین زخمی بھی ہوئیں اور آکسیجن کی کمی کے باعث کچھ خواتین کو سانس لینے میں دقت کا سامنا رہا۔ اس باعث یہ خواتین مزید کوپیمائی جاری نہ رکھ سکیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ
بالآخر ٹیم کی چار ارکان بسمہ، کومل، ڈاکٹر سیو اور ثمینہ بیگ نے سطح سمندر سے پانچ ہزار چھ سو میٹر بلند پہاڑی کو سر کر لیا۔ اس مقام پر درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستانی خواتین سخت کھیل میں حصہ لے سکتی ہیں
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے مطابق خواتین کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کوہ پیمائی جیسے سخت کھیل میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Pakistan Youth Outreach
پاکستان میں اسپورٹس معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے
پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے شریک بانی مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ اور ان کی بہن ثمنیہ بیگ نوجوانوں، خصوصی طور پر لڑکیوں کی کھیلوں میں شمولیت کو بڑھانا چاہتے تھے اور اسی لیے ’پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ‘ کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں اسپورٹس ایک معاشرتی اور اقتصادی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی سوچ اور خیالات کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Pakistan Youth Outreach
خواتین کے لیے کم مواقع
مرزا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہمارے معاشرے میں گھروں سے باہر، خصوصی طور پر کھیلوں کے لیے بنائے گٗئے میدانوں میں لڑکیوں کو بہت کم مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ خواتین کوہ پیمائی کی اس مہم کے ذریعے ہم نے خواتین میں خود اعتمادی اور ان میں قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔