ماؤں سے محروم بچے تاریک راہوں میں گم ہوجاتے ہیں:ڈاکٹر نگہت شاہ
12 اکتوبر 2010کم بچے خوشحال گھرانہ، یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ بہت سے معاشرتی اور صحت سے متعلقہ مسائل کا حل ہے۔ تاہم ترقی پذیر معاشرے ابھی اس سوچ سے کافی دور نظر آتے ہیں۔ خاص طور سے زرعی اور روایتی معاشروں میں کثرت اولاد خاندانوں کی معاشی بہتری اور والدین کے بڑھاپے کے سہارے کے طور پر بہت اہم تصور کی جاتی ہے۔ لیکن متعدد بچوں کو جنم دینے والی ماں ہی جب تندرست نہ رہے یا دوران زچگی یا پھر بچے کی پیدائش کے وقت اس دنیا سے رخصت ہو جائے تو نومولود بچے اور پورے گھرانے کے لئے یہ بہت بڑا المیہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ دور میں گرچہ شہری علاقوں میں بچوں کی فی عورت پیدائش کی شرح 3.43 بتائی جاتی ہے تاہم دور افتادہ، پسماندہ علاقوں میں آج بھی ایک عورت 10 سے 15 بچوں کو جنم دیتی ہے۔ اس اہم اور حساس موضوع پر پاکستان کی معروف ماہر امراض نسواں ڈاکٹر نگہت شاہ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں بتایا کہ انہوں نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ بہت سے دور افتادہ مقامات کا دورہ کیا ہے اور وہاں خاص طور سے حاملہ خواتین کو طبی امداد پہنچانے کے علاوہ ان کے مسائل کا بھی بغور جائزہ لیا۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب کو طبی ماہرین بیماریوں، غربت، افلاس اور جہالت کا سیلاب بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے دور افتادہ علاقے جہاں اب تک کسی کی رسائی نہیں ہوئی تھی، وہاں کے مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے سبھی کے مسائل منظر عام پر آئے ہیں۔ پاکستان کی Society of Obstetrics and Gynecologists کی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر نگہت شاہ کہتی ہیں کہ وہ مسائل جن کے بارے میں معاشرے میں تمام لوگوں نے اب تک آنکھیں بند کر رکھی تھیں، اب انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
اُن کے بقول ’پاکستان میں اب تک فیملی پلاننگ کی جو کوششیں کی گئی ہیں، وہ ناکام رہی ہیں کیونکہ دور افتادہ مقامات کی رہائشی عورتوں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ وہاں نہ سڑکیں ہیں نہ ہسپتال، زچہ عورتیں گونا گوں مسائل کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلی جاتی ہیں۔ اب وہ کیمپوں میں آ گئی ہیں تو انہیں طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ علم اور شعور اور آگہی دینے کی کوشش ہم کر رہے ہیں۔ انہیں بتا رہے ہیں کہ بہت زیادہ بچوں کی پیدائش ان کے لئے کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے، اور یہ کہ حاملہ ہونے سے بچنے کے محفوظ طریقے موجود ہیں۔‘
پاکستان کے چھوٹے چھوٹے دیہات میں خواتین میں عمومی شعور کی کمی کی وجہ ڈاکٹر نگہت یوں بتاتی ہیں: ’ان خواتین نے زندگی میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر دیکھے ہیں، پہلی بار سڑکیں دیکھی ہیں، پہلی بار بلب دیکھا ہے۔ ایک خیمے میں ہم ان خواتین کو جمع کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے مسائل سنتے ہیں۔ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ اتنے بچے کیوں پیدا کرتی ہیں۔ انہیں ادویات کی عدم دستیابی کے مسئلے کا سامنا ہے۔ ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان کے شوہر مانع حمل ذرائع استعمال کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ان عورتوں کے لئے یہ معاملہ ان کے عقیدے کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر معاشرتی دباؤ بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ معاشرے کے اس گیپ کو ہم پورا کر سکیں، تبھی ان مسائل کا طویل المدتی حل نکل سکے گا۔‘
حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والی ڈاکٹر نگہت شاہ نے اپنے چند دلچسپ تجربات کا ذکر کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’میں ایک ایسی عورت کو دودھ کا ڈبہ دے رہی تھی، جس کے ہاں بارہواں یا تیرہواں بچہ پیدا ہوا تھا اور وہ اپنا دودھ کافی نہ ہونے کی وجہ سے اس بچے کو ڈبے کا دودھ دینے پر مجبور تھی۔ وہ عورت مجھ سے کہنے لگی کہ اُس کی والدہ بھی حاملہ ہے اس لئے اُسے اپنی ماں کے لئے بھی دودھ کا ڈبہ چاہئے۔‘
ڈاکٹر نگہت کے بقول بہت سے پسماندہ علاقوں میں ماں، بیٹی، بہو اور ساس سب ایک ساتھ ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔ دو دو تین تین نسلیں ایک ساتھ افزائش نسل کے عمل میں شامل رہتی ہیں۔ ایک نہایت غیر معمولی زاویے کی نشاندہی کرتے ہوئے ڈاکٹر نگہت کا کہنا تھا: ’میں نے جب ان خواتین سے پوچھا کہ تم لوگ اتنے زیادہ بچے کیوں پیدا کرتی ہو، تو انہوں نے جواب میں پوچھا کہ شہروں میں عورتیں کتنے بچے جنم دیتی ہیں؟ میرا جواب تھا۔ زیادہ سے زیادہ تین۔ یہ سُنتے ہی ان خواتین نے کہا کہ اگر ان میں سے ایک یا دو بچے مر جائیں تو؟‘
ڈاکٹر نگہت شاہ کہتی ہیں کہ ہم کتنا بھی یہ سمجھیں کہ یہ عورتیں بغیر سوچے سمجھے بچے پیدا کرتی رہتی ہیں، ایسا نہیں ہے، ان خواتین کو بہت کچھ پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔
ہم نے ڈاکٹر نگہت سے پوچھا کہ محفوظ مانع حمل ذرائع کون سے ہیں، تو ان کا جواب تھا: ’عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے ایسے ذرائع موجود ہیں۔ دیگر طریقوں کے علاوہ مانع حمل گولیاں بھی کبھی کسی خاتون کے زندگی کے لئے خطرے کا باعث نہیں بنتیں۔ مردوں کو بھی اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیئں۔‘
ڈاکٹر نگہت کا کہنا ہے کہ عورت کی زندگی بہت قیمتی ہے۔ اُسے اپنی زندگی کی قدر کرنی چاہئے۔ وہ تمام خواتین کے لئے اپنا پیغام یوں دیتی ہیں: ’ایک ماں یا عورت محض ایک جان نہیں ہوتی، اس کے جتنے بچے ہوتے ہیں، اتنی ہی جانیں ایک ماں کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ ماں کی موت نہ صرف تمام کنبے کے لئے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوتا ہے بلکہ وہ تمام بچے جنہیں وہ جنم دیتی ہے، ساری زندگی کے لئے تاریک راہوں میں کھو جاتے ہیں۔‘
حاملہ خواتین کی صحت کی حفاظت اور متعدد بچے جنم دینے والی ماؤں کے مسائل کے بارے میں پاکستانی گائنی کالوجسٹ نگہت شاہ کے ساتھ کشور مصطفیٰ کی خصوصی گفتگو آپ نیچے دئے گئے آڈیو لنک کی مدد سے سن سکتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک