مائیکروسوفٹ کا ڈیجیٹل کلاس روم
23 مارچ 2010جرمن شہر ہینوور میں دو سے چھ مارچ کے دوران ہونے والی کمپیوٹر کی سب سے بڑی نمائش CeBit 2010 میں کمپیوٹر اور اس سے متعلق ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا بھر سے چار ہزار سے زائد کمپنیوں نے اپنی جدید ترین مصنوعات اور ایجادات متعارف کرائیں، جن میں کچھ نمائش دیکھنے والوں کی توجہ کا خصوصی مرکز تھیں۔ انہی میں سے ایک معروف امریکی سوفٹ ویئر کمپنی، مائیکروسافٹ کی جانب قائم کئے جانے والا ایک جدید ڈیجیٹل کلاس روم بھی تھا۔ جسے 'کلاس روم آف دی فیوچر' یعنی مستقبل کے کلاس روم کا نام دیا گیا تھا۔ اس کلاس روم میں کوئی روایتی بلیک بورڈ یا وائٹ بورڈ نہیں ہے، کیونکہ اس کمرہ جماعت میں موجود طلبہ اور اساتذہ مائیکروسوفٹ ملٹی میڈیا پلیٹ فارم لائیو ایٹ ای ڈی یو سے جڑی نیٹ بُکس، لیپ ٹاپس اور مائیکروسوفٹ سرفیس ٹیبلز استعمال کرتے ہیں، جو کہ شکل میں عام میز کی طرح ہوتے ہیں مگر ان کی سطح دراصل ایک جدید ٹچ اسکرین کمپیوٹر ہے۔ اس کے علاوہ کلاس روم میں جدید ملٹی ٹچ وائٹ بورڈ بھی موجود ہے۔ اس ماڈل کلاس روم میں پانچ سو کے لگ بھگ بچوں نے کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور پرائیویسی کے موضوع پر مختلف کلاسوں میں حصہ لیا۔
اس جدید کلاس روم کے بارے میں مائیکروسوفٹ جرمنی کے کارپوریٹ سٹریٹیجک ڈیپارٹمنٹ کے کرسٹوف سائٹس نے بتایا، "یہاں پر ہم نے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی استعمال کی ہے وہ مستقبل کی یا تخیلاتی نہیں ہے بلکہ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت دستیاب ہے۔ اس کلاس روم میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی میں عام لیپ ٹاپس اور نیٹ بکس کے علاوہ ڈیجیٹل وائٹ بورڈ شامل ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی حامل سرفیس ٹیبلز بھی ہیں۔ بچے ایک گروپ کی شکل میں اس ٹچ اسکرین کمپیوٹر کے گرد بیٹھ کر بہت دلچسپی سے اپنے مطلوبہ ٹاپک کے بارے میں تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں"
کرسٹوف سائٹس کے مطابق یہ ماڈل کلاس روم تیار کرنے سے قبل طلبہ، اساتذہ اور والدین سے معلومات اکٹھی کی گئیں کہ ان کے خیال میں ایک کلاس روم کو کیسا ہونا چاہیے۔ اور پھر ان کی ضروریات اور مشوروں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ جدید کلاس روم بنایا گیا۔
کیا ایسے کلاس رومز عام اسکولوں میں بھی جلد دیکھنے کو ملیں گے؟ اس سوال کے جواب میں کرسٹوف سائٹس نے کہا، "فی الحال تو جرمنی کے بھی بہت سے اسکولوں کے لئے اس طرح کا کلاس روم قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے تو ان اسکولوں کے پاس اس طرح کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے تعلیم دینے والے اساتذہ دستیاب نہیں ہیں۔ جب کہ دوسرا مسئلہ ایسے کلاس روم پر اٹھنے والے اخراجات کا ہے، کیونکہ فی الحال حکومت کی طرف سے بھی ایسی کوئی فنڈنگ موجود نہیں ہے کہ اسکول اس طرح کا کلاس روم افورڈ کرسکیں۔"
تاہم کرسٹوف کے مطابق اس ماڈل کلاس روم میں استعمال کی گئی ٹیکنالوجی میں سے کچھ چیزوں کو مختلف اسکول اب بھی استعمال کررہے ہیں۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : عدنان اسحاق