مائیکرو پلاسٹک سے سبزیوں کی افزائش متاثر
2 نومبر 2025
مائیکروپلاسٹک کے زرعی اثرات کے حوالے سے لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سسٹین ایبل اسٹڈی سینٹر اور سعودی عرب کی نورا بنت عبدالرحمان یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ساتھ ترکی اور سیرا لیون کے ماہرین نے یہ تحقیقی کاوش کی۔
عملی تجربہ
مطالعے کے لیے سائنسدانوں نے تین اقسام کے پلاسٹک لیے جن میں شفاف بوتلوں کا پولی ایتھائلین ٹریفلیٹ ( پی ای ٹی)، شفاف تھیلی کا پلاسٹک (ہائی ڈینسٹی پولی ایتھائلین) اور 100 فیصد پولی ایسٹر فائبر شامل تھے۔ تینوں اقسام کے پلاسٹک کو مسلسل پیس کر چار ملی میٹر ٹکڑوں تک باریک کیا گیا۔ پھر مٹی کے وزن کے لحاظ سے صرف ایک فیصد مقدار میں پلاسٹک ذرات شامل کیا گیا، جس میں ہری پیاز اور بھنڈی کےبیج بوئے گئے۔
اسی طرح ایک دوسرے نظام میں بھی دونوں سبزیوں کے بیج ڈالے گئے لیکن ان میں پلاسٹک شامل نہ تھا۔ ماہرین نے ان پودوں کی افزائش کا مشاہدہ کیا اور دونوں گروہوں کے درمیان نشوونما کے فرق کا بغور جائزہ لیا گیا۔ بغیر پلاسٹک یا کنٹرول گروپ والے پودوں کے مقابلے میں پلاسٹک ذرات کی مٹی میں اگائی جانے والی سبزیوں پر منفی اثرات نوٹ کئے گئے، جس کی تفصیلات ہفت روزہ سائنسی جریدے ''نیچر‘‘ نے 10 اکتوبر کو شائع کی ہے۔
پورے عمل میں دونوں اقسام کے پودوں کا بغورجائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ پلاسٹک کی معمولی مقدار بھی پودے کے قد پر اثر انداز ہوئی، ان میں آکسیجن کی مقدار کم ہوئی، پودوں کی خوراک بنانے میں اہم کردار ''کلوروفِل‘‘ بھی کم بنا اور صحت کے لیے مفید قدرتی پگمنٹس اور کیروٹونوئڈ بھی معمول کے مطابق نہ بن سکے۔
تاہم پودے کی ظاہری علامات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پلاسٹک کے ذرات کی وجہ سے بھنڈی اور ہری پیاز کے پودے معمول کی لمبائی تک نہ پہنچ سکے، ان کی جڑیں چھوٹی رہ گئیں اور پودے پر پتوں کی تعداد بھی صحت مند پودے سے کم تھی۔
لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی سائنسدان ڈاکٹر زائرہ احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کھاد میں شامل پلاسٹک کے ذرات مختلف فصلوں پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق 2020 کی تحقیق بتاتی ہے کہ مکئی کے کھیت میں شامل پلاسٹک کی انتہائی معمولی مقدار سے بھی پودے کی مجموعی پیداوار ، جڑ اور تنے کی افزائشی شرح پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا ۔
اس کے برخلاف 2018 کی ایک تحقیق کے مطابقگندم والی مٹی میں اگر پلاسٹک شامل ہوجائے تو وہ اس کی پیداوار کو شدید متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظرنہ آنے والے پلاسٹک کا ماحولیاتی بحران ہمارے لیے نئے مسائل کی وجہ بن رہا ہے، جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئیے زائرہ احمد کا کہنا تھا، ''نرسریوں میں پودے پلاسٹک کی تھیلیوں میں فروخت کیے جاتے ہیں جب کہ شجرکاری میں بھی انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ فوری طور پر یہ عمل ترک کرتے ہوئے پٹ سن (جوٹ) یا کاغذ کی تھیلیوں میں پودے رکھ کر انہیں زمین میں کاشت کیا جائے تاکہ پلاسٹک مٹی کی زرخیزی کو متاثر نہ کرسکے۔‘‘
ہوا، مٹی، پانی اور پلاسٹک
پوری دنیا میں ہر سال 46 کروڑ میٹرک ٹن پلاسٹک بنایا اور استعمال کیا جاتا ہے، جس کی معمولی مقدار ہی ری سائیکل کی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو کروڑ ٹن پلاسٹک براہِ راست مٹی، سمندراور ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ ختم ہونے کی بجائے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا رہتا ہے اور ہوا یا پانی کے ذریعے زمین کے ہر کنارے تک پہنچتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ پہاڑ کی چوٹی سے لے کر عمیق ترین سمندر تک پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں۔ ناقابلِ یقین بات یہ ہے کہ دنیا میں تیار کیا جائے والا اولین پلاسٹک آج بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
اگست 2025 میں دنیا کے 180 سے زائد ممالک کئی روز تک پلاسٹک پر پابندی کے جامع قانون پر غور کرتے رہے لیکن بعض نکات پر اتفاق کی وجہ سے یہ قرارداد عملی صورت اختیار نہ کرسکی۔
جب ڈی ڈبلیو نے زائرہ احمد سے فصلوں تک پلاسٹک پہنچنے کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ اس کا سب سے بڑا ذریعہ نکاسی آب ہے۔ ''ہماری صنعتوں، گھروں اور ٹیکسٹائل کے کارخانوں سے نکلنے والا آلودہ پانی کسی ٹریٹمنٹ کے بغیر زرخیز زمینوں اور زرعی اراضی تک جا رہا ہے۔ پھر اس میں پلاسٹک کی تھیلیاں جمع ہوتی جاتی ہیں جو پلاسٹک ذرات کو قدرتی ماحول تک لے جاتی ہیں۔‘‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس کے عملی ثبوت دیکھے جاسکتےہیں جہاں ملیر میں آلودہ پانی سے براہ راسٹ کھیتی باڑی کی جا رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عین انہی کھیتوں کے کنارے کچرے کے بڑے ڈھیر موجود ہیں جس میں 80 فیصد تک کوڑا پلاسٹک پر مشتمل ہے۔
اس تناظر میں مزید تحقیق اور مٹی میں مائیکروپلاسٹک کا نفوذ روکنے کے لیے سخت عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔