1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحول

ماحولیاتی بحران کے سبب مہاجرین کی حالت مزید ابتر،اقوام متحدہ

12 نومبر 2024

اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں عالمی سطح پر ریکارڈ تعداد میں لوگوں کو بے گھر کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں اور نقل مکانی کے پہلے سے ہی تشویش ناک مسئلے کو مزید خراب کر رہی ہے۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2050 تک، زیادہ تر پناہ گزینوں کی بستیوں اور کیمپوں کو آج کے مقابلے میں دو گنا خطرناک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا
رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2050 تک، زیادہ تر پناہ گزینوں کی بستیوں اور کیمپوں کو آج کے مقابلے میں دو گنا خطرناک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گاتصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Yasin

باکو میںبین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران، اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ کس طرح بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت اور موسم کے شدید واقعات نقل مکانی کی تعداد اور حالات کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس نے ان خطرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ اور بہتر سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا ہے۔

'شدید گرمی کی وبا' انسانیت کو مار رہی ہے، اقوام متحدہ کی تنبیہ

یو این ایچ سی آر نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا کہ کس طرح سوڈان، صومالیہ اور میانمار جیسی جگہوں پر موسمیاتی دھچکے تنازعات کے ساتھ مل کر پہلے سے خطرے میں گھرے لوگوں کو مزید سنگین حالات میں دھکیل رہے ہیں۔

 یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلیپو گرانڈی نے رپورٹ کے پیش لفظ میں کہا، "ہماری گرم ہوتی ہوئی دنیا میں، خشک سالی، سیلاب، جان لیوا گرمی اور دیگر انتہائی موسمی واقعات خطرناک تعداد کے ساتھ ہنگامی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔"

سیلاب ماحول کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

 انہوں نے کہا کہ "اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور لوگ اس بحران کے سب سے زیادہ متاثرین میں ہیں،" انہوں نے اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ بے گھر ہونے والے 75 فیصد لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں آب و ہوا سے متعلق خطرات کا سامنا ہے۔

"جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی کی رفتار اور پیمانہ بڑھتا جائے گا، یہ اعداد و شمار بڑھتے ہی جائیں گے۔"

موسمیاتی آفات نے صرف گزشتہ دہائی کے دوران ان کے ممالک کے اندر تقریباً 220 ملین افراد کو بے گھر کر دیا ہےتصویر: DW

بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں دوگنی

 یو این ایچ سی آر کے جون کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ریکارڈ 120 ملین لوگ پہلے ہی جنگ، تشدد اور ظلم و ستم کی وجہ سے جبری طور پر بے گھر ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے موسمیاتی کارروائی کے خصوصی مشیر اینڈریو ہارپر نے اے ایف پی کو بتایا، "عالمی سطح پر، تنازعات کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں دوگنی ہو گئی ہے۔"

دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کی قیمت کون ادا کر رہا ہے؟

یو این ایچ سی آر نے درون ملک نقل مکانی کی نگرانی کے مرکز کے حالیہ اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ موسمیاتی آفات نے صرف گزشتہ دہائی کے دوران ان کے ممالک کے اندر تقریباً 220 ملین افراد کو بے گھر کر دیا ہے – جو تقریباً 60,000 روزانہ بے گھر ہونے کے برابر ہے۔

ہارپر نے کہا، "ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔" انہوں نے نقل مکانی کرنے والے اور ان کی میزبانی کرنے والی کمیونٹیز کی مدد کے لیے درکار فنڈز کی شدید کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ زیادہ تر پناہ گزینوں کے آباد ہونے والے علاقے کم آمدنی والے ممالک میں پائے جاتے ہیں، اکثر "صحرا میں، ایسے علاقوں میں جو سیلاب کا شکار ہیں، ایسی جگہوں پر جہاں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں"۔

انتہائی موسمیاتی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں ممالک کی تعداد 2040 تک، تین سے بڑھ کر 65 ہو جائے گیتصویر: Fabeha Monir/DW

عالمی برادری سے مالی امداد میں اضافے کا مطالبہ

یو این ایچ سی آر نے کہا کہ یہ صورت حال مزید بدتر ہونے کی طرف گامزن ہے۔ اقوام متحدہ کی تنظیم کے مطابق دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد جو انتہائی موسمیاتی خطرات کا سامنا کر رہے ہیں 2040 تک، تین سے بڑھ کر 65 ہو جائے گی۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2050 تک، زیادہ تر پناہ گزینوں کی بستیوں اور کیمپوں کو آج کے مقابلے میں دو گنا خطرناک گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 ہارپر نے خبردار کیا کہ یہ نہ صرف غیر آرام دہ اور وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے صحت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے، بلکہ فصلوں کے خراب اور مویشیوں کے مرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

 انہوں نے کہا، "ہم آب و ہوا کی انتہاؤں سے دوچار جگہوں، جیسے نائجر، برکینا فاسو، سوڈان، افغانستان میں قابل کاشت اراضی کے بڑھتے ہوئے نقصان کو دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آبادی میں بڑے پیمانے پر اضافہ بھی ہوا ہے۔

یو این ایچ سی آر نے باکو اجلاس میں شریک فیصلہ سازوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی موسمیاتی مالی امداد پناہ گزینوں اور میزبان برادریوں تک پہنچے، جنہں اس کی اشد ضرورت ہے۔

 ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں