جنگوں، تنازعات ، انسانی ہوس اور ترقی کی خواہش نے اس دھرتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ انسان اپنی ان غلطیوں سے کچھ سیکھ لے۔ کیا یہ ممکن ہے؟ طاہرہ سید کا بلاگ
اشتہار
اس دھرتی کے باسیوں نے 6 اگست 1945ء کو ستر ہزار جانوں کو ہیروشیما میں یک لخت ہلاک ہوتے دیکھا اور صرف دو دن کے وقفے سے ناگا ساکی کے مزید پینتیس ہزار افراد چشم زدن میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس تباہ کاری کا شکار صرف انسان ہی نہ تھے بلکہ وہ قدرتی نظام بھی نشانہ بنا، جو انسانی حیات کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ایٹم بم کے زمین کو چھونے کے ساتھ ہی اس کے اطراف کے ماحول کا درجہ حرارت سات ہزار دو سو فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے اس درجہ حرارت میں ہر طرح کی نباتات اور حیوانات اس صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔
لہذا انسان کے اس خونریز عمل نے نہ صرف زمین سے روئیدگی چھین لی بلکہ ماؤں کی کوکھ معذور بچوں کو جنم دینے لگیں۔ طاقت کے نشے میں گم حکمرانوں نے ایک لمحے کے لیے بھی کیا یہ سوچا ہوگا کہ ان کے اس فیصلے کی کیا قیمت ہے اور وہ قیمت کس کس کو چکانی پڑے گی؟
کہا جتا ہے کہ قوی الجثہ ڈائنوسار کے زمانے میں ایک شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا، جس کے نتیجے میں زمین کے گرد مٹی کا ایک بادل وجود میں آگیا اور یہ بادل زمین اور سورج کے درمیان کچھ اس طرح حائل ہوا کہ زمین سورج کی روشنی سے محروم ہوگئی۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/R. Ozawa
10 تصاویر1 | 10
چونکہ اس اونچائی پر بارش نہیں ہوتی لہذا اگلے کئی سالوں تک مٹی کا وہ بادل ویسے اس علاقے پر چھایا رہا اور زمینی حیات سورج کی روشنی حاصل نہ کرسکنے کے باعث دم توڑنے لگی۔ موجودہ دور میں انسان زمین کی تباہی کے معاملے میں اس قدر خودکفیل ہوچکا ہے کہ کسی آسمانی آفت کا انتظار کیے بغیر چند لمحوں میں ہی زمین کو مکمل تباہی سے دوچارکر سکتا ہے۔
حضرت انسان نے اس وقت ویت نام کے کھیتوں کی کوکھ بھی اجاڑی جب امریکہ نے ویت نامی علاقوں پر ایسا کیمیکل اسپرے کیا جس نے نہ صرف کھڑی فصلیں تباہ کر دیں بلکہ زمین کی زرعی صلاحیت ہی ختم کر دی۔
جنگوں کی تاریخ میں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ جب دوران جنگ اطراف نے اپنے حریف کی ہر وہ چیز صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی یا انہیں ناقابل استعمال بنا دیا، جو حریفوں کو فائدہ پہنچا سکتی تھی۔ ویت نام کی جنگ میں بھی یہی ہوا کہ تقریباً چار اعشاریہ آٹھ ملین لوگ اس تباہی سے متاثر ہوئے اور چار لاکھ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ ان کاروائیوں سے متاثر ہوکر کسی معذوری کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد تقریبا پانچ لاکھ تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں ہی حضرت انسان کلورین گیس اور مسٹرڈ گیس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کر چکا تھا۔ وقت کے ساتھ انسان نے ہتھیاروں میں ڈی پلیٹڈ یورینیم کا استعمال کرنا شروع کیا۔ ان ہتھیاروں کا استعمال انسان کے ڈی۔این۔اے کو نقصان پہنچاتا ہے اور قطرہ قطرہ اسے موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
عراق جنگ کے دوران امریکا کی جانب سے جو ہتھیار استعمال کیے گئے ان میں ڈی پلیٹڈ یورینیم کی بھاری مقدار استعمال کی گئی جو کہ تقریبا تین سو چالیس ٹن بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عراق میں کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات محض اتفاق نہیں۔ اس تناظر میں میک اسکلٹن نامی ایک شخص کی پی ایچ ڈی تھیسس کی رپورٹ اس بات کو بطور ثبوت پیش کیا جاتا ہے کہ ڈی پلیٹڈ یورینیم کے استعمال نے عراق کی ماحولیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
غیر استعمال شدہ ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے جو طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے اس سے اگر انسان نقصان سے بچ بھی جائیں تو قدرتی نظام ضرور متاثر ہوتا ہے۔ ان ہتھیاروں کو یا تو زمین میں دبایا جاتا ہے یا پھر کسی غیر آباد علاقے میں جا کر دھماکے کے ذریعے ضائع کیا جاتا ہے جو کہ یقینی طور پہ ماحول کے قدرتی نظام کو متاثر کرتا ہے ۔
ہوا کے ساتھ ساتھ قدرتی آبی وسائل بھی حضرت انسان کے اعمال سے محفوظ نہیں رہے۔ دیوہیکل بحری جہاز جب سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو یقینا اپنے ملک کی ترقی اور جاہ و جلال کا مظہر ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ان بڑے جہازوں سے سمندر کے پانی میں شامل ہونے والی استعمال شدہ تیل کی ایک بھاری مقدارآبی حیات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ ان جہازوں کی تباہی کی صورت میں ان میں موجود تمام بارود اور تیل سمندر برد ہو جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران سمندروں میں تیل سے پیدا ہونے والی آلودگی کا اندازہ تقریبا پندرہ ملین ٹن لگایا گیا ہے جو کہ آج تک بحرہ اوقیانوس کو آلودہ کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح عراقی فوجوں نے خلیج فارس میں جس طرح سے تیل ضائع کیا اور پھر کویت میں 630 تیل کے کنوؤں کو آگ لگائی اس سے پیدا ہونے والے دھوئیں نے جو ماحول کو نقصان پہنچایا اس کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے ۔
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
12 تصاویر1 | 12
موجودہ دور میں امریکی فوج تیل کی سب سے زیادہ کھپت کرنے والا ادارہ ہے۔ امریکی فوج کے زیراستعمال گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی فضا کو آلودہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دنیا میں استعمال ہونے والے تیل کی پوری کھپت کا 25 فیصد جنگی جہازوں میں استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ وہ اعدادوشمار ہیں، جو امن کے زمانے میں لیے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار یورپ کے کسی چھوٹے ملک جیسا کہ ڈنماَرک میں پیدا ہونے والی آلودگی کے برابر ہے۔
جنگوں سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ایک پہلو تو وہ ہے جو دنیا کے سامنے نظر آتا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے یا اپنی جان بچا کر کیمپوں میں پناہ لینے والے افراد جو کہ امن کے زمانے میں زمین کو اپنی ہری بھری فصلوں سے سجاتے تھے جنگلات کو کاٹ کر تعمیراتی مقاصد یا ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اسی طرح خانہ جنگی والے ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ عسکری تنظیموں کے جنگجو جو کہ جنگلوں میں روپوش ہو کر زندگی گزار تے ہیں وہ بھی جنگلات کی لکڑی یا جانوروں کے گوشت پر زندگی کی گزر بسر کرتے ہیں۔ اسی طرح ان تنظیموں کی طرف سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے جنگلی حیات کو اسمگل کرنے کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے۔ نتیجتاً کچھ جانور ایسے ہیں جن کی نسل ناپید ہورہی ہے۔ 2006 میں مائی مائی باغیوں نے ورینگا ریور کے علاقے میں ہپوپوٹامس یعنی دریائی گھوڑے کی پوری نسل ہی ختم کر دی جس کی وجہ سے اس علاقے کا قدرتی نظام متاثر ہوا۔
اسی طرح افغانستان میں ہونے والی 30 سالہ جنگ کے نتیجے میں افغان پستے کی پیداوار ختم ہو چکی ہے۔ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے 85 فیصد پنچھی اب اس سرزمین کا رخ بھی نہیں کرتے۔ اسی طرح کانگو میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں وہاں کے ہاتھیوں کی تعداد بائیس ہزار سے کم ہوکر صرف پانچ ہزار رہ گئی۔
اس تمام صورت حال کے پیش نظر دنیا میں ماحولیات کے حوالے سے قانون سازی کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں یو۔این۔جی۔اے نے 6 نومبر کا دن خاص طور پر دنیا کو احساس دلانے کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے کہ جنگوں کے دوران ماحولیات کو نقصان نہ پہنچایا جائے لیکن طاقت کے نشے میں گم حکمران اگر اتنی انسانیت رکھتے تو جنگ شروع ہی نہ ہو۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کا نتیجہ پوری دنیا کی 90 فیصد آبادی کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
ہیروشیما، ناگاساکی: ایٹمی قیامت کو ستّر سال بیت گئے