’ماحولیاتی تبدیلیاں فصلوں کی غذائیت پر بھی اثر انداز‘
12 جون 2018
ماحولیاتی تبدیلیاں اجناس کی پیداوار اور خوراک کے معیار کے لیے شدید خطرات کا باعث ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو فوڈ سکیورٹی اور عوامی صحت کے شعبوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اشتہار
ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اجناس کی پیداوار کے ساتھ ساتھ خوراک کے معیار کو بھی سنگین نوعیت کے خطرات کا سامنا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک طرف تو اجناس کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف سبزیوں، پھلوں اور اجناس میں غذائیت بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے عالمی سطح پر فوڈ سکیورٹی اور عوامی صحت کے مستقبل پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔
مٹی کے بغیر کاشتکاری، مستقبل کے انسان کے لیے مفید ہے؟
زمین کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے کھیتوں میں کاشتکاری کے عمل کو مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے۔ ابھی سے مزید خوراک کے حصول کی جدوجہد شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
خوراک کی عدم فراہمی اور زمین کے بغیر کاشتکاری
سن 2050 تک زمین کی آبادی پچاس ارب تک ہو سکتی ہے اور خوراک کی فراہمی ایک مشکل چیلنج ہو گا۔ زمین کے بعض حصے شدید بارشوں سے زیادہ نم زدہ ہیں جب کہ کچھ اور علاقے خشک تر ہو چکے ہیں۔ اس باعث کاشتکاری میں زیادہ اختراعی انداز اپنانا اہم ہو چکا ہے۔ ایسے میں زمین کی مٹی کے بغیر اختراعی کاشتکاری کو ایک حل خیال کیا گیا ہے۔ ریت یا پتھروں میں فصل بونے کو ہائیڈروپونکس کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
ہوا میں پودے اگانے کا سلسلہ
کم جگہ میں فصل کاشت کر کے زیادہ پیداوار حاصل کرنا بھی اختراعی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسٹار ٹریک فلم کا کوئی منظر محسوس ہوتا ہے لیکن حقیقت ہے کہ قدیمی دور میں انسان ایسا کرتا رہا ہے۔ ایزٹک تہذیب کے لوگ معلق کھیتوں میں کاشتکاری کیا کرتے تھے۔ ہائیڈروپونکس کا ایک مطلب زمین کے بغیر کاشتکاری بھی لیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. De Melo Moreira
پیداوار میں بے پناہ اضافہ
زمینی مٹی کے بغیر کاشتکاری کسی حد تک مصنوعی انداز میں کی جاتی ہے اور اس کے لیے غذائیت کو اہمیت حاصل ہے۔ مختلف طریقوں میں غذائی محلول کا استعمال کر کے جڑیں پھیلانے کو معطل کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں غذائی محلول کا اسپرے بھی شامل ہے۔ ایسی کاشتکاری میں مصنوعی انداز میں حرارت، روشنی اور دوسرے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پودا جلد تیار ہو جائے اور پیداوار بھی زیادہ دے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مٹی کے بغیر کاشتکاری کا مؤثر انداز
اس طریقہٴ کاشتکاری یعنی ہائیڈروپونکس میں پانی کا انتہائی قلیل استعمال کیا جاتا ہے۔ روایتی کاشکاری سے دس فیصد کم پانی استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر خشم موسم میں کارگر ہے لیکن غذائیت یقینی طور پر فصل میں زیادہ موجود ہے۔ اسی طرح کیمیکل کھاد کا استعمال بھی کم ہوتا ہے۔ کیڑے مار ادویات نہ ہونے کے برابر استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ زمینی مٹی موجود نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
کاشتکاری کا عمودی انداز
ہائیڈروپونکس میں پودے عمودی طور پر لگائے جاتے ہیں تا کہ وہ اوپر کی جانب بڑھ سکیں۔ یہ پودے عموماً طشتریوں میں لگائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر کچھ فاصلے پر رکھی جاتی ہیں۔ اس انداز میں پودے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور کم جگہ گھیرتے ہیں۔ یہ اندازِ کاشتکاری مؤثر گردانا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ Photoshot
بغیر مٹی کے کاشتکاری کا منفی پہلو
ہائیڈروپونکس ایک طرح سے پیچیدہ کاشتکاری کا انداز قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور یہ مہنگا ہے۔ پودوں کو غذائی مواد درکار ہے اور آلات کی بھی ضرورت ہے۔ بجلی کی فراہمی منقطع ہونے پر ساری فصل ضائع ہو سکتی ہے۔ مصنوعی انداز میں حرارت اور روشنی کی فراہمی ذاتی خرچ پر ہے جبکہ روایتی کاشتکاری میں حرارت اور روشنی کا ذریعہ سورج ہے، جو مفت ہے۔
تصویر: Imago/View Stock
ہائیڈروپونکس کو عروج حاصل ہو سکتا ہے
نظریاتی طور پر بغیر مٹی کے کسی بھی فصل کو اگایا جا سکتا ہے، جیسا کہ کھیرے، ٹماٹر، سبز سلاد، مرچ یا دوسری جڑی بوٹیاں لیکن سبھی کے لیے ایک خاص تکنیک کی ضرورت ہے۔ بظاہر بغیر مٹی کے کاشتکاری ابھی بہت مقبول نہیں ہے لیکن یہ مستقبل کے چیلنج کا سامنا کر سکتی ہے۔ سن 2016 میں اس انداز کی کاشتکاری یا ہائیڈروپونکس کا مالیتی حجم اکیس بلین ڈالر سے زائد تھا۔
لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافے اور اس کے خوراک اور پانی پر اثرات کا تفصیلی معائنہ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کا زیادہ ارتکاز خوراک میں غذائیت اور فصلوں میں کمی کی صورت برآمد ہو گا اور اس سے مستقبل میں انسانوں کی روزمرہ کی زندگی کو شدید مشکلات پیش آئیں گی۔
اس سے قبل ماحولیاتی تبدیلیوں کے خوراک پر اثرات سے متعلق تحقیق کی توجہ فقط گندم، چاول اور مکئی کی فصلوں تک محدود رہی تھی، تاہم خوراک میں غذائیت کی کمی کی صورت میں اثرات سے متعلق اس انداز سے تفصیلی بات چیت نہیں کی گئی تھی۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خوراک میں غذائیت کی کمی کے معاملے کو ’جنک فوڈ ایفکٹ‘ قرار دیا گیا ہے۔ محقیقین بار ہا کہہ چکے ہیں کہ پودوں یا فصلوں کے ذریعے پیدا کی جانے والی اجناس اور خوراک میں غذائیت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ محققین کا کہنا ہے، سبزیوں، پھلوں اور اجناس میں معدنیات، پروٹین اور وٹامنز میں کمی کا رجحان ہے، تاہم یہ بات واضح نہیں ہو پا رہی تھی کہ غذائیت میں اس کمی کی اصل وجوہات کیا ہیں۔
اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ پاؤلانے شیلبیک کے مطابق، غذائیت سے متعلق مسلسل کہا جاتا رہا ہے کہ لوگ سبزیوں اور پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں، تاہم جدید مطالعہ بتایا رہا ہے کہ یہ نصیحت ممکنہ طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے متصادم ہے، جو مستقبل میں ان فصلوں کی کمی کا باعث بننے والے ہیں۔‘‘
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مہاجرت
قحط، سمندروں کی سطح میں اضافے اور کاشتکاری میں ناکامی کے نتیجے میں آئندہ تین دہائیوں کے دوران مہاجرت کرنے والے افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Imago/R. Unkel
حکومتوں کے لیے انتباہ
ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اگر حکومتوں نے فوری نوٹس نہ لیا تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط اور شدید موسموں کی وجہ سے کئی خطوں میں تباہی پھیل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور بہتر زندگی کی خاطر مہاجرت پر مجبور ہو جائے گی۔
تصویر: qudsonline
مہاجرت میں ڈرامائی اضافہ
ورلڈ بینک کے مطابق عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آئندہ تین دہائیاں انتہائی اہم ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور متاثرہ خطوں کے لوگوں کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایسے خطوں میں خوراک اور پانی کی قلت بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/M. Reino
زندگی کو خطرات
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک ماحولیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہاجرت سے 143 ملین افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے چالیس ملین افراد کا تعلق زیریں صحارا، چالیس ملین کا جنوبی ایشیا جبکہ سترہ ملین کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے بتایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Xiaopeng
اچھے ماحول کی تلاش
دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی نصف آبادی یعنی 2.8 فیصد زیریں صحارا، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک میں ہی سکونت پذیر ہے۔ یہ خطے ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ کوئی ایسی رپورٹ مرتب کی گئی ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت کے معاملے کو جامع اور مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
تصویر: Mehr
ماحولیاتی تبدیلیاں مہاجرت کی ’اہم وجہ‘
عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جیوگیوا کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک بڑٰی وجہ بن چکی ہیں۔ روزگار کے مواقع ختم ہونے کے علاوہ خوراک، پانی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قلت کہ وجہ سے کنبے کے کنبے ایسے خطوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، جہاں ان کی زندگی کو سکون میسر آ سکتا ہے۔
تصویر: nedayehirmand
بہتری کی توقع ہے
ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں زیادہ اقتصادی مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم عالمی عالمی بینک کے مطابق اگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور پائیدار دور اندیش ترقیاتی مںصوبہ بندی کی خاطر عالمی سطح پر ایکشن لیا جائے تو لاکھوں افراد کو ایسے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔
تصویر: MEHR
ایتھوپیا سب سے زیادہ متاثر
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں افریقی ملک ایتھوپیا بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو پزار پچاس تک اس ملک کی آبادی تقریبا دوگنا ہو جائے گی۔ قحط کے باعث کاشت کاری کے خاتمے کی وجہ سے زیریں صحارا کے اس ملک سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کے خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: AP
بنگلہ دیش کے مسائل
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں لوگوں کے داخلی سطح پر بے گھر کی سب سے بڑی واحد وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث جہاں گلیشئرز پگھل رہے ہیں، وہیں سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس طرح کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: bdnews24.com/A. Pramanik
انسانی المیے کا خطرہ
عالمی بینک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت ’ایک انسانی المیے‘ میں بدل سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا یقین ہے کہ اگر عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کی جائے تو صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔ یہ گیسیں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب بھی قرار دی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/G.Tomasevic
دیہاتوں سے شہر نقل مکانی
ماہرین کے مطابق دیہاتوں میں کاشتکاری اور لائیو اسٹاک کے متاثر ہونے کے سبب لوگ شہروں کی طرف مہاجرت اختیار کر رہے ہیں اور یوں انہیں بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو مقامی لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی سے ان کی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: tnews
10 تصاویر1 | 10
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار ایک طرف تو پودوں کو فوٹوسینتھیسز کے عمل میں معاونت دے رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کی نشوونما میں اضافہ زیادہ تیز ہے، مگر اس کا سائیڈ ایفکٹ یا ضمنی اثر یہ ہے کہ ان پودوں سے محصولہ خوراک میں غذائیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔