ماحولیاتی تبدیلیاں قدرتی وسائل کے حصول کے لیے بھی خطرہ
16 دسمبر 2021
موسمياتی تبديليوں سے انسانوں اور جانوروں کی بقا کو تو خطرہ لاحق ہے ہی مگر ساتھ ہی ہماری دنيا ميں موجود وسائل بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہے ہيں۔ آنے والے وقتوں ميں تيل اور گيس کی قلت بھی ممکن ہے۔
اشتہار
موسمياتی تبديليوں کے سبب آنے والے طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کی وجہ سے دنيا بھر ميں تيل اور گيس کے ذخائر تک رسائی ناممکن ہو سکتی ہے۔ يہ انکشاف برطانوی کنسلٹنسی فرم 'ويرسک ميپل کروفٹ‘ نے اپنی تازہ رپورٹ ميں کيے ہيں۔
تازہ تحقيق کے مطابق کلائمٹ چینج کی وجہ سے تيل اور گيس کے چاليس فيصد ذخائر يا چھ سو بلين بيرل تک رسائی ختم ہو سکتی ہے۔ سعودی عرب، عراق اور نائجيريا اس صورتحال سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
دنيا بھر ميں سب سے زيادہ خام تيل ايکسپورٹ کرنے والے ملک سعودی عرب ميں بے انتہا گرمی، پانی کی قلت اور ريت کے طوفان رکاوٹ بن سکتے ہيں۔ نائجيريا افريقہ ميں تيل کا دوسرا سب سے بڑا ايکسپورٹر ملک ہے۔ وہاں تيل اور گيس کے ذخائر نائجر ڈيلٹا کے دريائی سلسلے ميں پائے جاتے ہيں۔ اس علاقے ميں خشک سالی اور سيلابوں کا خطرہ ہے۔
موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کيسے متاثر کر رہی ہيں؟
پانی کی قلت، قدرتی آفات ميں اضافہ اور شديد گرمی کی لہریں۔ يہ سب اس بات کی نشانياں ہيں کہ موسمياتی تبديلياں پاکستان کو کس طرح متاثر کر رہی ہيں اور مستقبل ميں کيا کچھ ہونے والا ہے۔ ديکھيے اس بارے ميں ايک پکچر گيلری۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستانی عوام کو لاحق خطرات
پاکستان ’گلوبل وارمنگ‘ يا عالمی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے عالمی سطح پر اخراج کا صرف ايک فيصد کا حصہ دار ہے تاہم اس کے باوجود موسمياتی تبديليوں و درجہ حرارت ميں اضافے سے پاکستان کی دو سو ملين سے زائد آبادی کو سب سے زيادہ خطرات لاحق ہيں۔ سن 2018 کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ ميں پاکستان ان ممالک کی فہرست ميں شامل ہے، جو موسمياتی تبديليوں سے سب سے زيادہ متاثر ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان سب سے زيادہ متاثرہ خطے ميں واقع
جغرافيائی لحاظ سے پاکستان مشرق وسطی و جنوبی ايشيا کے وسط ميں واقع ہے۔ پيش گوئيوں کے مطابق اسی خطے ميں درجہ حرارت ميں اضافے کی رفتار سب سے زيادہ رہے گی۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ايک سابقہ رپورٹ کے مطابق سن 2100 يا اس صدی کے اختتام تک اس خطے ميں اوسط درجہ حرارت ميں چار ڈگری سينی گريڈ تک کا اضافہ ممکن ہے۔
جان و مال کا نقصان
جرمن واچ نامی تھنک ٹينک کے 2018ء کے ’گلوبل کلائمیٹ رسک انڈيکس‘ کے مطابق پچھلے قريب بيس برسوں ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات کے سبب پاکستان ميں سالانہ بنيادوں پر 523.1 اموات اور مجموعی طور پر 10,462 اموات ريکارڈ کی گئيں۔ اس عرصے ميں طوفان، سيلاب اور ديگر قدرتی آفات کے سبب تقريباً چار بلين امريکی ڈالر کے برابر مالی نقصانات بھی ريکارڈ کيے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.Naveed
کراچی کو خطرہ لاحق
1945ء ميں پاکستان بھر ميں چار لاکھ ہيکٹر زمين پر مينگرو کے جنگل تھے تاہم اب يہ رقبہ گھٹ کر ستر ہزار ہيکٹر تک رہ گيا ہے۔ مينگرو کے درخت سونامی جيسی قدرتی آفات کی صورت ميں دفاع کا کام کرتے ہيں۔ کراچی ميں سن 1945 ميں آخری مرتبہ سونامی آيا تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق بحر ہند ميں کسی بڑے زلزلے کی صورت ميں سونامی کی لہريں ايک سے ڈيڑھ گھٹنے ميں کراچی پہنچ سکتی ہيں اور يہ پورے شہر کو لے ڈوبيں گی۔
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images
سيلاب اور شديد گرمی کی لہريں
پاکستان ميں سن ميں آنے والے سيلابوں کے نتيجے ميں سولہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سيلابی ريلوں نے ساڑھے اڑتيس ہزار اسکوائر کلوميٹر رقبے کو متاثر کيا اور اس کے مالی نقصانات کا تخمينہ دس بلين ڈالر تھا۔ کراچی سے تين برس قبل آنے والی ’ہيٹ ويو‘ يا شديد گرمی کی لہر نے فبارہ سو افراد کو لقمہ اجل بنا ديا۔ ماہرين کے مطابق مستقبل ميں ايسے واقعات قدرتی آفات ميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
پاکستان کيسے بچ سکتا ہے؟
موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات سے بچنے کے ليے پاکستان کو سالانہ بنيادوں پر سات سے چودہ بلين ڈالر درکار ہيں۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ يہ فنڈز کہاں سے مليں گے؟ پاکستان کی سينيٹ نے پچھلے سال ايک پاليسی کی منظوری البتہ دے دی تھی، جس کے مطابق پاکستان ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات سے پچنے کے ليے ايک اتھارٹی قائم کی جانی ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Raza
پاکستان کيا کچھ کر سکتا ہے؟
سن 2015 ميں طے ہونے والے پيرس کے معاہدے ميں پاکستان نے سن 2030 تک ’گرين ہاؤس‘ گيسوں کے اخراج ميں تيس فيصد کمی لانے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس پر تقريباً چاليس بلين ڈالر کے اخراجات آئيں گے۔ پاکستان نے يہ ہدف خود مقرر کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Malik Amin Asmal
7 تصاویر1 | 7
موسمياتی تبديليوں کے اثرات اس صنعت پر رواں سال اس وقت ديکھے گئے، جب امريکی گلف کوسٹ پر واقع خام تيل ريفائن کرنے کا سب سے بڑا مرکز شديد سرد موسم کے باعث بند پڑا رہا۔ اس کے نتيجے ميں تيل اور گيس کی قلت ديکھی گئی۔ 'ويرسک ميپل کرافٹ‘ ميں ماحوليات سے متعلق امور کے تجزيہ کار روری کلسبی کے بقول، ''مستقبل ميں ايسے واقعات زيادہ شدت کے ساتھ اور تواتر سے ہونے لگيں گے۔ اس سے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچے گا۔‘‘
اس وقت دنيا بھر ميں تيل اور گيس کے دس فيصد ذخائر ايسے مقامات پر موجود ہيں، جن کے بارے ميں ماحولياتی و موسمياتی ماہرين کی رائے ہے کہ وہ انتہائی زيادہ خطرناک علاقوں ميں واقع ہيں۔ ايک تہائی کے بارے ميں ماہرين کی رائے ہے کہ وہ 'ہائی رسک‘ علاقوں ميں واقع ہيں۔
شمسی توانائی کا حصول: کون سا ملک آگے، کون پيچھے؟
حاليہ قدرتی آفات نے تحفظ ماحول کی اہميت کو ايک مرتبہ پھر اجاگر کر ديا ہے اور روز مرہ کی زندگی کے قريب تمام پہلوؤں ميں ماحول دوست طرز عمل اختيار کرنے کی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW
شمسی توانائی کا حصول، چين سب سے آگے
چين شمسی توانائی کے حصول ميں سرفہرست ملک ہے۔ وہاں سن 2020 ميں مجموعی طور پر 261.1 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی کی پيمائش کا طريقہ ہے۔ فی ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی کے ايک يونٹ کو کہا جاتا ہے، جس ميں فی گھنٹہ ايک کھرب واٹ بجلی پيدا ہوتی ہے۔
تصویر: Str/AFP/Getty Images
امريکا اور جاپان بھی سرفہرست ممالک
امريکا بھی اس فہرست ميں نماياں ہے۔ وہاں 2020ء ميں مجموعی طور پر 132.63 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ گزشتہ برس جاپان ميں سورج کی روشنی سے 84.45 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: Getty Images/M. Tama
بھارت اور جرمنی بھی پيش پيش
بھارت اور جرمنی بھی شمسی توانائی کے حصول ميں پيش پيش ہيں۔ بھارت ميں سالانہ 58.73 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوتی ہے۔ جرمنی ميں سن 2020 کے دوران مجموعی طور پر 51 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کی گئی۔ جوہری قوت يا کوئلے کی نسبت سورج کی روشنی سے توانائی کے حصول کو ماحول دوست قرار ديا جاتا ہے۔
اٹلی اور اسپین یورپی صف بندی ميں تيسری پوزيشن پر ہيں۔ ان ملکوں ميں سالانہ بيس سے چاليس ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوتی ہے۔ پچھلے سال اٹلی اور اسپين ميں بالترتيب 26.5 اور 20.76 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Global Warming Images/A. Cooper
شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ
سالانہ دس سے بيس ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ملکوں کی فہرست ميں جنوبی کوريا، آسٹريليا، ويت نام، ترکی، فرانس، برطانيہ اور ميکسيکو شامل ہيں۔ ان ملکوں کے بعد برازيل اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے، جہاں پچھلے سال بالترتيب 7.59 اور 7.91 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔
تصویر: SINGAPORE'S NATIONAL WATER AGENCY - PUB/AFP
ڈھائی سے ساڑھے سات ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ممالک
سن 2020 کے دوران ڈھائی سے ساڑھے سات ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا کرنے والے ملکوں ميں جنوبی افريقہ چلی، کينيڈا، مصر، متحدہ عرب امارات، تھائی لينڈ، يونان، سوئٹزرلينڈ اور بيلجيئم شامل ہيں۔
تصویر: Joerg Boethling/imago images
پاکستان ميں شمسی توانائی 1.03 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی
پاکستان کا شمار ان ملکوں ميں ہوتا ہے، جہاں سن 2020 کے دوران شمسی توانائی سے ايک سے ڈھائی ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ پاکستان ميں مجموعی طور پر 1.03 ٹيرا واٹ گھنٹہ بجلی پيدا ہوئی۔ اس فہرست ميں اردن، روس، ارجنٹائن، ہنڈوراس، مراکش، قزاقستان، پرتگال، پولينڈ، چيک ری پبلک، ہنگری، رومانيہ، فلپائن، بلغاريہ، پورٹو ريکو اور آسٹريا بھی شامل ہيں۔
تصویر: Rohayl Varind
فہرست ميں سب سے نيچے
پيرو، الجزائر، يوکرائن، ملائيشيا اور کئی جنوبی امريکی و افريقی ممالک اس ملکوں کی فہرست کا حصہ ہيں، جہاں سالانہ ايک ٹيرا واٹ گھنٹہ سے کم بجلی پيدا ہوتی ہے۔