پولینڈ کے جنوبی شہر کاٹووِیسا میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے۔ ادھر برسلز میں ہزاروں افراد نے تحفظ ماحول کی خاطر ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا۔
اشتہار
ماحول دوست کارکنان نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی خاطر کی جانے والی کوششوں میں تیزی کی ضرورت ہے کیونکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے ہونے والے خطرات زیادہ بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ انتباہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب پیر سے پولش شہر کاٹووِیسا میں اقوام متحدہ کی کلائمٹ چینج سے متعلق ایک اہم عالمی کانفرنس کا آغاز ہوا ہے۔
اس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے خطرے اور اس کے سدباب کے حوالے سے مذاکرات کیے جائیں گے۔
دو ہفتے تک جاری رہنے والے اس سالانہ اجلاس میں تقریبا دو سو ممالک شریک ہوں گے۔ اس بات پر غور کیا جائے گا کہ سن دو ہزار پندرہ کے عالمی ماحولیاتی معاہدے پر کس طرح عمل درآمد ممکن بنایا جائے۔ امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہو چکا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کی خاطر فعال کارکنان نے اتوار کے دن بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ایک بڑے مظاہرے کا اہتمام کیا، جس میں 65 ہزار افراد نے شرکت کی۔
قبل ازیں ویک اینڈ پر اسی طرح کی ریلیاں جرمن دارالحکومت برلن اور کولون میں بھی منعقد کی گئی تھیں۔ ان مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ توانائی کے شعبے میں کوئلے پر انحصار کم کیا جائے۔
کوئلے کے استعمال کو ماحول کے لیے نقصان دہ اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ ماحول دوست کارکنان کا کہنا ہے کہ متبادل توانائی کے ذارئع پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، جن میں شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی انرجی شامل ہے۔
پولینڈ میں ہونے والی کانفرنس کو سن دو ہزار پندرہ میں ہوئی پیرس کلائمیٹ کانفرنس کے بعد انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پیرس کانفرنس میں ایک ڈیل طے پائی تھی، جس کے تحت عالمی درجہ حرارت کو کم از کم دو سینٹی گریڈ کی سطح تک محدود کرنا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر ڈرامائی اقدامات کیے جانا ناگزیر ہیں۔
دریں اثنا عالمی بینک نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایسے ممالک کے لیے دو سو بلین ڈالر کی رقوم فراہم کرے گا، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات کریں گے۔
یہ مالی امداد پانچ برسوں کے دوران ان ممالک کو فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے ماحول دوست ایکشن پلان بنائیں۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
جانورں کی بڑے پیمانے پر اموات
جب ہزاروں جانور ایک ہی وقت میں ہلاک ہو جائیں، تو محققین زیادہ تر ایسی گتھی کو سلجھا لیتے ہیں۔ تاہم ایک بات تو طے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور آلودگی ان ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
آکسیجن کی کمی
اس سال کے دوران ابھی تک دنیا بھر میں کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر مچھیلوں کے ایک ساتھ مرنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی مچھلیوں کا وزن تینتیس ٹن کے برابر ہے۔ یہ واقعہ 2015ء میں برازیل کی ایک بہت بڑی جھیل میں پیش آیا تھا۔ رودریگو ڈے فرائتاس نامی یہ جھیل انتہائی آلودہ ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے مچھیلوں کو مناسب آکسیجن مہیا نہیں ہو پاتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Scorza
نہ مچھلی، نہ پرندوں کے لیے خوراک
گزشتہ برس امریکی شہر سان فرانسسکو سے لے کر برٹش کولمبیا کے ساحلوں تک تقریباً دس ہزار سمندری پرندے اچانک مر گئے تھے۔ اس سال ایسا ہی ایک اور واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے تاہم اس مرتبہ ان پرندوں کی بڑی تعداد الاسکا کے ساحلوں پر ہلاک ہوئی۔ محقیقن نے ایک وجہ پرندوں کی خوراک کی کمی کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق پانی کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ان پرندوں کی خوراک بننے والی مچھلیاں غائب ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Thiessen
کچھوؤں میں انفیکشن
گرین سی ٹرٹل یا سبز پانی کے کچھوے بہت بڑی جسامت کے حامل ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کے بڑے کچھوؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ گرین سی ٹرٹل ناپید ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہیں۔ آج کل یہ کچھوے ایک خاص قسم کے انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کچھوے کچھ کھا نہیں سکتے ہیں اور بہت مشکل سے ہی حرکت کر پاتے ہیں۔ ابھی تک یہ نہیں علم ہو سکا ہے کہ یہ انفیکشن اتنی تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے۔
اس تھوتھنی والے ہرن نما جانور کو سیگا کہا جاتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ گزشتہ برس کی ابتدا میں دنیا بھر میں سیگا کی نصف تعداد اچانک مر گئی تھی اور وہ بھی صرف دو ہفتوں کے دوران۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ جانور ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے ہیں اور ایک سال میں ان کی نسل مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ تاہم اس سال ابھی تک اس قسم کی کوئی خبر موصول نہیں ہوئی ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
قیر ماہی بھی بھٹک رہے ہیں
جنوری 2004ء میں لاطینی امریکی ملک چلی کے ساحلوں پر ہزاروں قیر ماہی یا آکٹوپس راستہ بھٹک کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے نے رواں برس خود کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ محققین ان واقعات کی ذمہ داری بھی ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کر رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب محققین تشویش کا شکار بھی ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں قیر ماہی کی ہلاکتوں کے واقعات پہلے کبھی سامنے آئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ناقابل برداشت حدت
گزشتہ برس بھارتی شہر بھوپال میں اچانک بڑی تعداد میں چمگادڑیں مردہ حالت میں آسمان سے زمین پر گریں۔ اسی طرح 2014ء میں آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ میں بھی ایک لاکھ سے زائد چمگاڈریں ملی تھیں۔ ان میں زیادہ تر تو مردہ تھیں جبکہ کچھ آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ گرمی کے معاملے میں یہ پرندہ انتہائی حساس ہے اور بہت زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے موت کا پروانہ ہے۔
تصویر: Berlinale
وہیل مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکتیں
جرمنی ہو، امریکا ہو، نیوزی لینڈ یا پھر چلی۔ کئی دہائیوں سے ان ممالک میں متعدد وہیل مچھلیوں کی زندگی کا خاتمہ ساحلوں پر ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس چلی کے ایک ساحل پر چار سو سے زائد وہیل مچھلیاں مردہ پائی گئیں۔ اسی طرح رواں برس اب تک شمالی یورپ کے ساحلوں پر انتیس وہیل مچھلیاں مردہ حالت میں مل چکی ہیں۔