1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنگ پر اپنا غصہ برقرار رکھیں '

9 نومبر 2021

سابق امریکی صدر بارک اوباما نے نوجوانوں سے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف جنگ میں انہیں اپنا غصہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے موسمیاتی بحران کے حوالے سے چین اور روس کے رویے پر بھی نکتہ چینی کی۔

Barack Obama I UN-Klimakonferenz COP26 in Glasgow
تصویر: Christoph Soeder/dpa/picture alliance

ماحولیات سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس کے دوسرے ہفتے کا آغاز سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے خطاب سے ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے گلاسگو میں کیے جانے والے ''اہم کاموں '' کی تعریف کی، تاہم ان کا پیغام واضح تھا کہ عالمی رہنماؤں کو موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

نوجوانوں سے جد و جہد جاری رکھنے کی اپیل

اوباما نے اس موقع پر نوجوانوں سے خاص طور پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تبدیلیوں کے لیے انہیں اپنا سیاسی دباؤ استعمال کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے، ''خلاف لڑائی میں نوجوانوں کو اپنا غصہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔'' تاہم وقت کے ساتھ کچھ چیزوں کے ساتھ انہیں سمجھوتہ کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

انہوں نے نوجوانوں سے کہا، ''آپ کا مایوس ہونا درست ہے۔'' لیکن پھر انہوں نے وہ مشورہ دیا جو ان کی والدہ نے انہیں نوجوانی میں دیا تھا۔ ''غصہ ہو کر خاموش نہ ہو جائیں بلکہ مصروف عمل ہو جائیں، کام پر لگ جائیں اور اسے تبدیل کریں جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اس طرح سے ووٹ کریں جیسے کہ آپ کی زندگی اسی پر منحصر ہو...کیونکہ اب اس کا انحصار بھی اسی پر ہے۔'' 

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بارک اوباما نے کہا کہ مستقبل میں موسمیاتی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے دنیا ابھی، ''وہاں سے قریب بھی نہیں ہے جہاں ہمیں ہونے کی ضرورت ہے۔''

انہوں نے اس حوالے سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی شدید نکتہ چینی کی اور کہا کہ ''موسمیاتی سائنس کے خلاف ان کی فعال دشمنی'' نے امریکا کو بھی اس سے الگ تھلگ کر دیا تھا تاہم اب واشنگٹن پھر سے قائدانہ کردار کے لیے تیار ہے۔

تصویر: Christoph Soeder/dpa/picture alliance

روس اور چین پر تنقید

سابق امریکی صدر نے ماحولیاتی بحران پر گلاسگو میں ہونے والی سی اوپی  26  میں شرکت نہ کرنے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر بھی نکتہ چینی کی۔

انہوں نے کہا، ''مجھے اعتراف کرنا پڑے گا۔ یہ دیکھنا خاص طور حوصلہ شکن بات تھی کہ گرین ہاؤسز کا اخراج کرنے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ملک، چین اور روس کے رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ان کے قومی منصوبے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس معاملے پر ان میں عجلت کی کمی پائی جاتی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان ممالک کے منصوبوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان حکومتوں کی طرف سے، ''جمود کو برقرار رکھنے کی خواہش کا اشارہ ملتا ہے، جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔''

سن 2015 کے پیرس ماحولیاتی کانفرنس کے بعد اس موضوع پر اوباما کا یہ پہلا خطاب تھا۔ اوباما نے کہا کہ جس طرح یورپ اور امریکا جیسی، ''ترقی یافتہ معیشتوں '' کو موسمیاتی تبدیلیوں پر قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، اسی طرح روس، چین اور بھارت جیسے ممالک کو بھی آگے بڑھ کر اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا، ''جس طرح ہمیں اس مسئلے پر انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور برازیل کی قیادت کی ضرورت ہے، اسی طرح ہمیں اس معاملے میں روس کے قائدانہ کردار کی ضرورت ہے، ہم اس معاملے میں کسی کو بھی الگ تھلگ رکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔''

تصویر: Marcha a Glasgow

گلاسگو میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس یا سی او پی 26 چوٹی کانفرنس کا آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی سی او پی 26 ماحولیاتی کانفرنس کو سن 2015 کے پیرس معاہدے کے تسلسل کا ایک اہم جز قرار دیا جارہا ہے، جس میں عالمی برادری نے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سیلسیئس تک محدود کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔

 گلاسگو سمٹ میں 120 سے زائد سربراہان مملکت، متعدد بین الاقوامی تنظیمیں اور ماہرین ماحولیات حصہ لے رہے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سمٹ گلوبل وارمنگ سے انسانیت کو بچانے کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔

دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس سمٹ میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات کے وعدوں کے علاوہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے رہنما اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں ترقی پزیر ملکوں کی مالی مدد کی جائے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

ایمازون کے جنگلات ’موت‘ کے دہانے پر

02:25

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں